• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندازے وہ بھی حتمی
اندازہ لگانا اپنی جگہ یہ ثبوت ہے کہ کہنے لکھنے والے کے پاس کوئی حتمی بات نہیں، ایک پیر 20افراد کو تعویز اس لئے لکھ کر دیتا ہے اور سب ٹھیک ہونے کی بات کرتا ہے کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے دو تین کا کام تو ویسے بھی ہونا ہو گا، اور وہ اس کے پکے مرید بن جائیں گے اوروں کو بتائیں گے تو 6,5مزید یقین کر لیں گے کہ حضرت پیر بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں اور جن کا کام نہیں ہوا ہو گا وہ بد عقیدہ ہو بھی جائیں تو پیر کو کیا پروا یہی فارمولا چلتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بارگاہ، درگاہ اور حاجت روا مرکز بن جاتا ہے، اولیاء اللہ دعا کرتے ہیں وہ بھی اس امید پر کہ شاید قبول ہو جائے کہ اللہ رحمٰن و رحیم ہے، اسی طرح ہماری سیاسی تجزیہ کاری بھی کیمیا گری ہے ممکن ہے سونا بن جائے اور زیادہ ممکن کہ نہ بنے، ہمارا خیال ہے کہ اندازے ضرور لگائے جائیں مگر اس تاثر کے ساتھ نہیں کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، ہاں اگر تجزیہ معلوماتی اور رہنما ہو تو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے، ہم نے اکثر سنا ہے کہ دیکھا جو میں نے لکھا وہی ہوا، میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا اور ویسا ہی ہو گیا، اس طرح ایک پندار پیدا ہوتا ہے اپنے بارے میں کہ میں تو چیز ہوں بڑی مست مست، ایک روایت میں دانائے کل ﷺ نے فرمایا ہے یہ تو کہو کہ اگر اللہ نے چاہا مگر یہ نہ کہا کرو نہ ہی سوچا کرو کہ اگر میں نے چاہا تو۔۔۔ ہم متکلف خود کو باخبر کیوں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر غیر حتمی غیر سرکاری انداز میں کہہ سکتے ہیں ممکن ہے ایسا ہو جائے، تجزیہ فقط اندازہ ہوتا ہے، البتہ اس میں کچھ حتمی معلومات و اعدادو شمار کر کے اسے جاندار بنایا جا سکتا ہے، عالم وہ ہوتا ہے جو علمی بات کرتے وقت اپنی نفی کر کے بولتا ہے، اندازہ، تجربے، ذہانت اور معلومات کی پیداوار ہوتا ہے مگر اسے عین الیقین سمجھنے والا شاید یقین اور ظن و تحسین میں فرق نہیں سمجھتا اس لئے اس کی ’’میں‘‘ بھیفربہ ہوتی رہتی ہے، وگرنہ اندازہ کسی بھی قسم یا معیار کا ہو اندازہ ہی ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
وما علینا !
ن، پی پی پارلیمنٹ جانے پر متفق، مولانا فضل الرحمان اگر جا سکتے تو وہ بھی جاتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سارا الیکشن دوبارہ منعقد کرانے کا مطالبہ کر دیا۔ دنیا امید پر قائم ہے وہ حق رکھتے ہیں کہ شاید نئے الیکشن ہوں تو وہ بھی منتخب رکن ہوں، مگر صورتحال بقول میرؔ یہ ہے؎
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
آسمان بہت ڈاہڈا ہے، وہ ہمارے کھیل اکثر چلنے دیتا ہے مگر کبھی کبھی ان کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دیتا ہے جن کے بارے کہا جاتا ہے؎
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
اور ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی ابراہیم ذوقؔ کی اس نصیحت پر کان نہیں دھرتا ؎
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلائو کا رستہ سنبھل کے چل
مجھے اکثر خود سے گھن آنے لگتی ہے جب میں اپنی میں کی افزائش کرتا ہوں، سچ فرمایا تھا سلطان باہوؒ نے؎
باجھوں فقیراں کسے نہ ماریا
باہوؔ چور اندر دا
ہمیں تو بعض اوقات انکساری میں بھی ’’میں‘‘ سرایت ہوتی محسوس ہوتی ہے، بعض لوگ بدیہی امور کے انکار میں ندرت خیال پیدا کرنے کا شکار ہوتے ہیں اور ہمچوما دیگرے نیست کے دام میں اپنا طواف کرتے ہیں، جوشؔ نے ایسے افراد کو منکر بدیہیات کا خطاب دیا تھا، ن، پی پی نے پارلیمنٹ جانے پر اتفاق کیا یہ واقعی حسین اتفاق ہے حسن اتفاق نہیں، مولانا بفضلہ اولانا اب اقبال کی مان لیں کہ؎
کار جہاں دران ہے اب میرا انتظار کر
تو اچھے رہیں گے۔ وما علینا۔
٭٭٭٭
جمہوریت کا خاندانی حسن
ایک دلچسپ خبر ہے جسے جمہوریت کا خاندانی حسن بھی کہہ سکتے ہیں، کہ نئی قومی اسمبلی میں چار باپ بیٹا، ایک ماں بیٹی بھی ایک ساتھ بیٹھیں گے، جبکہ بلاول بھٹو، اسد محمود حسین الٰہی سمیت 15نوجوان تازہ ہوا کا جھونکا، لگتا ہے اصل تازہ ہوا کا جھونکا تو یہ ہے کہ اب سیاست سے پرانے خانوادے آئوٹ اور نئے خانوادے ان ہوں گے، آخر نئے جھونکے کے پاس اتنی تازہ دولت ہو گی تو اسمبلی تک پہنچا ہو گا البتہ بلاول، اسد محمود، حسین الٰہی اینڈ 12مزید نوجوانوں کی انٹری خوش آئند ہے۔ مگر وہ دن کب طلوع ہو گا جب غریب متوسط گھرانوں کے پڑھے لکھے ہونہار نونہال بھی اسمبلی کی سیٹوں پر بیٹھیں گے؟ بہرحال اگر ہمارا جمہوری ٹھیلہ چلتا رہا تو یہ ایک دن سائبیرین ایکسپریس بن جائے گا۔ اس امید پر زندہ ہیں کہ اگر ہمارے ہاں جمہوریت شرک سے پاک انداز کی جانب سفر کرتی رہی تو ایک دن ہمارے ہاں بھی جب کسی لیڈر کو دور سے آواز آئے گی کہ اس کے دامن پر داغ ہے تو وہ دفتر کے بجائے از خود گھر چل دے گا، جمہوریت آغاز ہی میں جواں سال نہیں ہوتی، اسے بچپن لڑکپن اور کھیلنے کودنے سے گزرنا پڑتا ہے، ڈگری تو پیسوں سے خریدی جا سکتی ہے، عقل کسی بازار سے نہیں ملتی دولتمند ہونا کوئی عیب نہیں مگر عظمت ہمیشہ غربت کی گود میں پلی بڑھی، یقین نہ آئے تو تاریخ عالم اٹھا کر دیکھ لیں، فن ہنر کوہ کنی میں ہے قیصری میں نہیں، کائنات کی عظیم ترین ہستی ﷺ نے روم کے وفد سے کہا ’’آپ پر کپکپی کیوں طاری ہو گئی میں تو اس عورت کا بیٹا ہوں جو خشک روٹی پانی میں بھگو کر کھاتی تھی، ’’خدا کرے کہ ہمارے جمہوری ایوانوںپر ایسا شباب آئے کہ غریب کے جھونپڑے میں بھی دولت بے حساب آئے، آخر کیوں ایسا ہے کہ مفلس و محروم کھاتے ہیں، بے ہنر و بیکار کھاتے اڑاتے ہیں جواں سال ارکان اسمبلی ہماری اس بات کو مانیں نہ مانیں پڑھ لیں یا کوئی انہیں یہ پہنچا دے۔
٭٭٭٭
قبر جنہاں دی جیوے ہو
....Oممکنہ سابق گورنر سندھ:سسٹم بیٹھا نہیں بٹھایا گیا۔
بس جاتے جاتے یہی کچھ قوم کو دینا، سمجھانا تھا۔
....Oبھارت بنگالی مسلمان اپنی شناخت کے لئے پریشان۔
بھارت میں بھارتی مسلمان اپنی حیثیت کے لئے پریشان۔
....O خورشید شاہ:عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر سندھ کو بچا لیا،
شاہ! عوام نے سندھ کو ووٹ دے کر پیپلز پارٹی کو بچا لیا۔
....Oچیف جسٹس کی فیملی کے ہمراہ دربار حضرت سلطان باہوؒ پر حاضری۔
آج سمجھ آیا کہ سلطان العارفین نے یہ کیوں کہا تھا؎
میں قرباں تنہاں دے باہو
قبر جنہاں دی جیوے ہو
٭٭٭٭
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین