• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیپیں پنکچر ہوگئیں، چکنے گھڑے بیچ منجدھار ڈوب گئے۔چاند تارے سب مدھم پڑ گئے۔ روایتی سیاست کا پاکستان میں دھڑن تختہ ہوگیا۔ دین دنیا کے علمبردارسب سیاست سے الگ ہوگئے۔ نظریاتی سیاست بھی دم توڑ گئی۔ نیلے پیلے خواب دکھانے والے سب ’’سر زمین پاکستان‘‘ میں دفن ہوگئے۔25جولائی کو ’’عوام‘‘ نے پاکستان کی انتخابی سیاست میں ایک نیا چن چڑھا دیا اور عمران خان کو جتوا دیا۔یہ عمران خان کاجذبہ جنون اور ایک خواب تھا جو اس نے22 سال قبل دیکھا اور اس نے اس خواب کو اپنی ہمت اور ناقابل شکست جذبے کی بنیاد پر حقیقت کا روپ دے دیا۔ شاید عمران خان نے اپنی منزل ’’نیا پاکستان‘‘ کوپالیا،ماضی میں بڑے بڑے گھاک سیاست دانوں نے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی خاطر ہر دور میں پاکستان کے نظریئے کو ہر رنگ میں بیچ چوراہے فروخت کیا۔ مگر آج یہ نظریہ ایک نئے روپ ، ایک نئی سوچ اور ایک نئی امنگ کے ساتھ دنیا کے سامنے جنون بن کر کھڑا ہے۔ اس منزل کو پانے کے لئے خصوصاً پاکستان کی نوجوان نسل ، مائوں، بہنوں، بزرگوںکی دعائیں اور عملی جدوجہد خان صاحب کے شامل حال رہی۔
جی ہاںاب تو خان صاحب ! آپ خوش ہیں نا، دے دیا عوام نے دل کھول کر آپ کا ساتھ، مان لیا آپ کو اپنا رہنما، کرلیا آپ پر بھرپور بھروسہ، ڈال دیئے آپ کی جھولی میں اپنے اور اپنے بچوں کے سارے ارمان۔ خان صاحب! اب تو آپ کو کوئی شکوہ نہیں کہ ’’عوام‘‘ نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ اس نے دیانت داری سے اداکردیا۔ مخالفین کے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود خیبرپختونخوا کے جانثار پختونوں نے پہلے سے بڑھ کر آپ پر محبت نچھاور کی اور پوری قوم نے اپنی آنکھوں میں سجے خواب آپ کے دل میں اتار دیئے۔ اپنے دکھ سکھ آپ سے جوڑ دیئے اب آپ ہی ہیں جو اس قوم کی راہیں سیدھی کرسکتے ہیں اوران کی تقدیر سنوار سکتے ہیں۔ اب آپ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی ٹیم تیار کیجئے، کھلا میدان پہلے آپ کی ’’ فیلڈنگ‘‘ پھر دھواں دار’’بیٹنگ ‘‘ کا منتظر ہے۔ اقتصادی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی و سفارتی میدانوں میں چوکے چھکے لگائیے۔ آپ کے الیکشن جیتنے کے بعد پہلے خطاب سے پوری قوم دل و جان سے آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ آپ کے مخالفین بھی آپ کے جذبے سے متاثر ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ بنی گالا سے اٹھنے والی دعائیں تیزی سے رنگ لا رہی ہیں اور آپ ’’اینگری مین‘‘ سے ’’جینٹل مین‘‘ بننے جارہے ہیں۔ دیکھنا صرف اتنا ہے کہ بغیر شیروانی یا واسکٹ کے بنی گالا میں قوم سے خطاب اور شیروانی پہن کر وزیراعظم ہائوس میں قوم سے خطاب میں کیا فرق ہوگا۔ آپ کی سادگی، قوم کے ٹیکسوں سے ملنے والے پیسے کی حفاظت ، سیاسی انتقام نہ لینے کا وعدہ اور شکست خوردہ مخالفین کو دھاندلی اور شک والا ہر حلقہ کھولنے کی پیشکش ایک تبدیل شدہ، پر عزم اور بااعتماد انسان کی نشانی ہے۔ جس کی ستائش نہ کرنا بغض سے کم کوئی چیز نہیں مگریہ بھی دیکھئے نا خان صاحب !آپ پر خوش نصیبی کتنی مہربان ہے کہ خدا نے راستے کی ہر رکاوٹ ووٹ کی طاقت سے ہی ہٹا دی۔نہ چودھری نثار جیسوں کے نخرے سہنے پڑیں گے اور نہ شاہد خاقان عباسی جیسے مضبوط دھڑے اور دھڑلے والے شخص سے بھی واسطہ پڑے گا۔ کیسی ٹھنڈی ٹھار قومی اسمبلی ہوگی جہاں محمود خان اچکزئی جیسوں کی تندو تیز سینہ چیرتی تقریریں سننی پڑیں گی، نہ اسفند یار ولی جیسے قد کاٹھ والے پختون لیڈر کا سامنا ہوگا۔یہ کیسی قومی اسمبلی ہوگی کہ جس میں آپ ہوں گے اور آپ کا عزم و جنون تو دوسری طرف آپ کے ’’مینڈیٹ‘‘ سے ڈرے سہمے بلاول بھٹو، زرداری اور شہباز شریف،خان صاحب! اس سے بڑی خوش بختی کیا ہوگی کہ قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں ’’ووٹرز‘‘ نے اپوزیشن کا ڈنک ہی نکال دیا ہے رہی بات پنجاب اسمبلی کی تو وہ بھی انشاء اللہ تھوڑا بہت فرق نکل ہی جائے گا۔ ہاں ایک فرق ضرور نظر آئے گا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے تشریف لائیں گے اور آئندہ پانچ سال پارلیمانی روایات کی پاسداری کریں گے اور اپوزیشن کی ہلکی پھلکی موسیقی بھی برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کریں گے جو شاید ماضی میں ان کا وطیرہ نہیں رہا،خان صاحب آپ کی خوش قسمتی کے شادیانے کہاں کہاں نہیں بج رہے۔ ایسا زبردست عوامی مینڈیٹ مل رہا ہے کہ لوگ ایٹم بم کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کی بجائے آپ کو یاد کرنے لگے ہیں کہ بھٹو نے قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑا اور تین میں کامیابی حاصل کی مگر آپ نے تو کمال ہی کر دیا ۔ پانچ حلقوں میں الیکشن لڑا اور سب پر کامیابی حاصل کی ، آپ تو بھٹو سے بھی بڑے لیڈر بن گئے ہیں اور ممکنہ طور پر اس معرکے میں آپ ایشیا کے سب سے بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں مگر خان صاحب! ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ پارلیمنٹ کی حدتک تو چلیں کام چل ہی جائے گا مگر پارلیمنٹ کے باہر جو 11 چھوٹی بڑی جماعتوںکے سربراہ قومی پارلیمانی سیاست سے آئوٹ ہوگئے کیا وہ اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کے لئے خاموش بیٹھے رہیں گے۔ اگر چہ میدان بالکل صاف ہے، اسلام آباد میں ہونے والی ’’شام غریباں‘‘ میں کچھ لوگوں کے ارمان پورے نہیں ہوئے اور حسب معمول میاں شہباز شریف پہلو بچا کر نکل پڑے اور سب پر بھاری آصف زرداری ایک بار پھر چیئرمین سینٹ کے انتخاب جیسی صورتحال سے دو چار ہیں کہ پیسہ بھی گیا اور مینڈیٹ بھی۔ وہ کسی بھی صورت موجودہ حالات میں سڑکوں کی سیاست نہیں کریں گے۔ ابھی بہت سارے لوگوں کی کئی اداروں میںپیشیاں ہو رہی ہیں اور ان کا احتساب جاری ہے پھر بھی جس دن نو منتخب اراکین قومی اسمبلی حلف اٹھائیں گے تو دیکھنا یہ ہوگا کہ پارلیمنٹ سے آئوٹ ہونے والی ماضی کی دینی، مذہبی، سیاسی لیڈر شپ کیا رنگ دکھائے گی۔ لگتا یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی دفاعی پوزیشن کے باوجود کچھ تو تماشا لگے گا اور وہی وزیراعظم عمران خان کے امتحان کا پہلا دن ہوگا اور یہ امتحان اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آپ قوم کو قرضوں سے نجات نہیں دلاتے، آئی ایم ایف کا کشکول نہیں توڑتے، پانی کی کمی پورا کرنے کے لئے نئے ڈیم نہیں بناتے خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام کی محبت کو آزمائیے اور کالاباغ ڈیم کی بنیاد رکھنے کی کوئی تدبیر نکالئے، نوجوانوں کو روزگار دینے کے خواب جو آپ نے دکھائے ہیں ان کی تکمیل کا اہتمام کیجئے، کراچی کے عوام نے جو آپ کو تاریخی مینڈیٹ دیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انہیں فوری طور پر پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی کوئی سبیل نکالئے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے بین الاقوامی دوستوں کو آزمائیے، آپ نے قوم کی تقدیر بدلنے کی جو ذمہ داری اٹھائی ہے ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں مگر متوقع وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر صاحب کو سمجھائیے کہ وہ ابھی وزیر خزانہ نہیں بنے مگر کشکول اٹھانے کے راستے پر گامزن ہونے کی باتیں کرکے عوام کو ڈرا رہے ہیں۔ آپ سے توقعات بھی بہت ہیں مگر راستہ کٹھن ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین