• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی پانامالیکس کا ہنگامہ برپا نہیں ہوا تھا اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف بھرپور طاقت سے عنان حکومت چلانے میں مستعد تھے، ابھی اپوزیشن سمیت کہیں سے اقتدار کو خطرہ نہیں تھا، سب کچھ مرضی کا چل رہا تھا، اسی دوران میں نے13 مارچ 2016 کو ’’احتساب آپ سے شروع ہوگا‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دستخط کردہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت غیرجانبدارانہ احتساب کے ادارہ کے قیام کا وعدہ پورا کرنے کی بات کی گئی اور اپوزیشن کے بجائے وزیراعظم کے عہدے سے اپنے اور اپنوں سے احتساب شروع کرنے کی نشاندہی کی گئی لیکن اقتدار میں خود عقل بھی محوتماشہ ہوتی ہے، پس حکمران دل کی بات نظرانداز کیسے کرتے۔ میری تحریر کے محض تین ہفتوں بعد لاکھوں صفحات کے پانامہ لیکس سے بڑے میاں کے خاندان اور450دیگر بڑوں کی آف شور کمپنیوں کا راز کھلا، سمندر پار پردوں میں چھپی اربوں کی خفیہ سرمایہ کاری منظر عام پر آگئی، میری تحریر پر حکومتی سطح پر براہ راست سخت تنقید اور شکوہ کیا گیا کہ مجھے پاناما لیکس سے متعلقہ اسٹوری منظر عام پر آنے کا پہلے سے علم تھا اور میں نے جان بوجھ کر حکومت کو بروقت آگاہ نہیں کیا۔ حالانکہ یہ محض اتفاق تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے یکطرفہ احتساب کے نام پر کارروائیوں کے مسلسل الزامات پر میری رائے تھی کہ بڑے میاں، وطن اور ہم وطنوں کی محبت میں اپنے اثاثوں کو خود عیاں اور قربان کرنے کی لازوال رقم داستان کر کے امر ہوجائیں اور خود سے احتساب شروع کرنے کا اعلان کردیں۔ میں نے توجیح کے طور پر اسی مضمون میں 1959میں جدید سنگاپور کی بنیاد رکھنے والے پہلے وزیراعظم مسٹرلی کا وہ واقعہ بیان کیا جس میں انہوں نے احتساب اور انصاف کو حکومت کی پہلی ترجیح قرار دیا اور پولیس چیف سے کہا کہ وہ نظر آنے والے احتساب وانصاف کے حقیقی اقدامات چاہتے ہیں ’’تو پولیس چیف نے وزیراعظم سے کہا۔
“Ok,Mr Prime Minister, but accountability will starts from you”.
(ٹھیک ہے جناب وزیراعظم، لیکن احتساب آپ سے شروع ہوگا)
پھر ایسا ہی ہوا، احتساب وزیراعظم، اس کے خاندان سے شروع ہوا اور بلاامتیاز ہوتا چلا گیا، قوم کی حالت ہی بدل گئی، آج سنگاپور ایشیا کا مکمل ترقی یافتہ ملک ہے، جس کا جی ڈی پی چار سو ارب ڈالر سے زائد ہے، فی کس آمدن خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے اور دنیا بھرمیں سنگاپور کی ترقی کی مثالیں اور گروتھ ماڈل کو پڑھایا جاتا ہے۔
پاکستان میں25 جولائی 2018کے عام انتخابات امن وسلامتی سے مکمل ہوچکے، نتائج بھی آگئے اور تبدیلی بھی۔ جی ہاں وہی تبدیلی جس کا خواب اس قوم اور خود عمران خان نے 22 برس پہلے دیکھا تھا۔ سال ہا سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر وہ وزیراعظم کے عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ انتخابی سفر تمام ہوا لیکن اصل امتحان اب شروع ہوا ہے جی حکمرانی کا امتحان۔ عمران خان نے کامیابی کے باضابطہ نتائج سے پہلے ہی 26 جولائی کو قوم سے خطاب میں احتساب خود سے شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے جو یقیناً پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی منتخب وزیراعظم نے قوم کے سامنے پہلے دن سے خود کو اعلانیہ احتساب کے لئے پیش کردیا ہے، قوم نے تو خطاب سن کر بہت امیدیں بھی باندھ لی ہیں لیکن قوم اورخان صاحب کےلئےعشق کے امتحان تو ابھی اور بھی ہیں۔ خان صاحب کا صرف خود سے احتساب شروع کرنے کا اعلان کافی نہیں دکھائی دیتا انہیں اپنے اردگرد جمع افراد کو بھی قوم کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا تبھی ملک کا کرپشن میں اٹا نظام درست ہونے کے قابل ہوسکےگا۔ خان صاحب نے انتخابات سے پہلے ہی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100 دن میں بڑے انقلابی اقدامات کے دعویٰ کردئیے، ملک کو درپیش اندرونی وبیرونی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی بتائی، ٹھوس معاشی و متوازن خارجہ پالیسی بنانے کا ٹاسک ذمہ لیا، پاکستان کو عوامی فلاحی وخوشحال ریاست بنانے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک بے داغ اور مضبوط کردار کی حامل کابینہ کے بغیر ممکن نہیں۔ میری ذاتی رائے میں انتھک محنت کرنے والے خان صاحب کو اصل چیلنج ہی وننگ کمبی نیشن بنانے کا ہے، یعنی ایک ویسی ہی ٹیم جس کی کامیابی کا منظر پوری دنیا نے1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں دیکھا تھا۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب تھے بہت امیر تھے لیکن جب اقتدار سنبھالا تو اپنا گھر تھا نہ کوئی بینک بیلنس، تو کیا 70 دہائیوں بعد ہمارے ملک کو پھر ویسا ہی وزیراعظم مل گیا ہے؟ کیا ہمارا ملک بھی حکمرانوں کی سادگی کی مثال بننے جارہا ہے؟ کیا ہمارے پرانے چہروں والے نئے حکمران اپنا طرز زندگی بدل کر سب کچھ قوم پر نچھاور کرنے جارہے ہیں؟ کیا واقعی نیا پاکستان بننے جا رہا ہے؟ شاید ان سوالوں کا جواب آئندہ 6 ماہ میں مل جائے گا لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ محض بے لاگ احتساب اور عدل وانصاف کے عمل سے ہی معاشرے ترقی کرسکتے ہیں دنیا کی تاریخ میں ایک سائنٹفک اصول ہے کہ جس معاشرے میں کرپشن زیادہ ہوتی ہے وہاں سب سے اوپر (سربراہ مملکت) والا اگر ایماندار اور باکردار ہو تو یہ خودبخود آدھی ہوجاتی ہے اور اثر پذیری کے قانون کے تحت اس کا اثر پورے معاشرے کے افراد پر برابر ہوتا ہے۔ خان صاحب آپ انقلابی نہیں تو ارتقائی اقدامات سے ہی آغاز کردیں، ملک میں غیر ترقیاتی کاموں پراخراجات کم کرکے عوام کی فلاح کے بنیادی کاموں اور ضروریات پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ قرضے اتارنے کے لئے عالمی اداروں سے مزید قرض لینے کے بجائے بیرون ملک مخیر پاکستانیوں کی مدد لیں، اپنی ٹیم کو مختصر رکھیں اور ٹیم میں ایسے افراد لیں جو اپنے شعبوں کے ماہر تو ہوں لیکن ان کا ماضی کرپشن اور ناکامیوں سے مبرا ہو۔ سادگی کے جس کلچر کی آپ نے بات کی ہے اس پر عمل بھی اتنا آسان نہیں اس کے لئے آپ کو سیاسی عناصر سے زیادہ بیوروکریسی کو قابو کر کے راہ راست پر لانا ہوگا جو انتہائی مشکل ترین ٹاسک دکھائی دیتا ہے۔ قوم منتظر ہے کہ آپ نے اپنی جدوجہد کے دوران جن ارادوں کو قوم کے سامنے مثال کے طور پر رکھا اب ان پر عمل درآمد کا آغاز کریں کہتے ہیں ۔
“If first step taken in the right direction, half the distance is cover”.
بلاشبہ 2018 کے انتخابات ہر لحاظ سے تاریخی ثابت ہوئے ہیں جس میں 10کروڑ ووٹرز میں سے5 کروڑ سے زائد ووٹرز کا رائے دہی میں حصہ لینا جس میں دو کروڑ نوجوان ووٹرز شامل تھے، بڑے بڑے خاندانوں، پارٹی سربراہوں، الیکٹ ایبلز اور نامی گرامی فاتحین کی بدترین شکست، یورپی یونین سمیت عالمی ومقامی مبصرین کی رپورٹس میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کا شفاف انعقاد شامل ہیں لیکن نتائج میں تاخیر اور انتخابات سے پہلے کے احتسابی اقدامات نے الیکشن کے نتائج پر کئی سوالات بھی کھڑے کئے ہیں جس پرعالمی ادارے تنقید کررہے ہیں تو اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ جمہوریت کے استحکام کا تقاضا ہےکہ عام انتخابات پر لگے داغ دھبوں کو دھونے کے لئے پارلیمنٹ کے فورم کا انتخاب کیا جائے اور خان صاحب دیگر بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ عوام کے مینڈیٹ کا مذاق بننے کے جواز کو ختم کرنے کے لئے ان تمام الزامات کی شفاف تحقیقات کی جامع منصوبہ بندی کر کے ایک غیرجانبدار جائزہ وتحقیقاتی کمیشن قائم کریں تاکہ جمہوریت کو تماشہ بنانے والوں کے عزائم ہمیشہ کے لئے ناکام ہو جائیں۔
kk

تازہ ترین