• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عام انتخابات 2018ء میں تحریکِ انصاف نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس کامیابی کے بعد بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’دھاندلی کی شکایات کرنے والی جماعتیں جس حلقے کو کہیں گی وہی حلقے کھولے جائیں گے۔ اللہ نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے، اپنا خواب پورا کر سکیں، پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے تاہم اب دوسرے مرحلے میں اپنے منشور پر عمل درآمد کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں خلفائے راشدین کے وقت جیسا نظامِ حکومت چاہتا ہوں، میں اس موقع پر میں چاہتا ہوں کہ تمام پاکستانی متحد ہوجائیں،میں بھی اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفت کو بھول چکا ہوں۔ سربراہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ اب ملک میں ایک ایسی حکومت آئے گی جس میں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، صرف اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کا احتساب نہیں ہوگا، بلکہ تحریک انصاف اپنے لوگوں کا بھی احتساب کرکے مثال قائم کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مدینہ کی ریاست پہلی فلاحی ریاست تھی، جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اصول قائم کئے تھے، ہماری کوشش ہوگی کہ پاکستان کو بھی انہی اصولوں پر لے کر آئیں۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے شرم آئے گی کہ میرے عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزاریں اور میں وزیرِاعظم ہائوس میں رہوں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہائوس کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا، چھوٹے کاروبار میں مدد کی جائے گی اور نوجوانوں کو ہنر سکھایا جائے گا۔‘‘ انتخابات میں کامیابی کے بعدیہ ان کے پہلے خطاب کا خلاصہ ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ میں اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفت بھول چکا ہوں، سب کو معاف کرکے اور سب کو ملک وقوم کی خدمت کی دعوت دے کرانہوںنے کئی اچھی تاریخی روایات کو کو زندہ کیا ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کیا ہے۔فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب کو معاف کردیا تھا۔ ماضی قریب میں جنوبی افریقا کے نیلسن منڈیلا نے بھی سب مخالفین کو معاف کردیا تھا۔ اپنے دشمنوں کو معاف کردینا دل گردے کا کام ہوتا ہے۔ یہ وہی شخص کرسکتا ہے جو ملک وقوم سےمخلص، وفادار اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ بے شک اقتدار عمران خان کے لئے فی الوقت پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ کانٹوں کی مالا ہے، لیکن قوم کو پوری اْمید ہے عمران خان اس میں اسی طرح کامیاب ہوں گے جس طرح دبئی کے زید سلطان النہیان ہوئے تھے۔ انہوں نے دن رات محنت کی۔ کئی سالوں تک ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کی۔ ہر شعبے میں ایمان دار لوگوں کو بھرتی کیا۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ عمران خان اسی طرح فتح یاب ہوں گے جس طرح سنگاپور کے لی کوآن ہوئے تھے۔امید ہے کہ عمران خان اسی طرح ملک وقوم کی خدمت کریں گے جس طرح ملائشیا کے مہاتیر محمد نے کی تھی۔گھمبیرحالات تھے جن میں مہاتیر محمد ملائیشیا کے وزیراعظم بنے۔ عوام ا نہیں بڑی امیدوں سے اقتدار میں لائے تھے۔ انہوںنے اپنا ایجنڈا مرتب کیا اور جان توڑ محنت اور ریاضت کو اپنا شعار بنالیاوہ رات کو صرف چار گھنٹے سوتے تھے۔ ان کی زندگی سادگی اور درویشی کا ایک سمبل بن گئی تھی۔ انہوں نے ملک کے بہترین دماغ اپنے گرد اکھٹے کئے، خاکے بنائے، منصوبے ترتیب دئیے۔ نقشوں میں حقیقت کے رنگ بھرے۔ ہر پلان کی کامیابی کا بتدریج اندازا وہ خود لگاتے تھے۔ انہوں نے معیشت کو فولادی بنیادیں فراہم کیں۔ معیارِ زندگی کو بڑے یورپی ممالک کے برابر لے آئےاور ملک کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ ہمیں توقع ہے عمران خان اسی طرح ملک کو ترقی دیں گے جس طرح چین کے ’’چواین لائی‘‘ نے دی تھی۔ آج چین کی صنعت کاری نے امریکہ اوریورپ کی منڈیوں پر قبضہ کررکھا ہے اور شاید عنقریب وہ سپر پاور بھی بن جائے۔ اسی طرح ہانگ کانگ کی ساحلی زمین پر درختوں کی ٹنڈلی شاخوں اور مچھیروں کی کچھ آبادیوں کے سوا کچھ نہ تھا، مگر اب یہ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔جنوبی کوریا جس کی راکٹ کی طرح اوپر اٹھتی ترقی کا آغاز مئی 1980ء میں ہوا پہلے ایک مدد مانگے ملک کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ یہ پاکستان تک سے مدد امداد کا خواستگار ہوا کرتا تھا۔ یہ سب ترقیاں ایک بڑے لیڈر کے خواب، پسینے، محنت، ریاضت اور دیانتداری کی وجہ سے ہوئی۔ اس طرح بیسیوں قوموں اور متعدد ممالک کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ بے شک ہماری قوم احسان فراموش نہیں، بلکہ جو شخص تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے اور جو تھوڑا سا بھی کام کرتا ہے پوری قوم اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ شریف برادران نے پنجاب میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، کرپشن، ہر قسم کے ناسور اور پسماندگی سے نکالنے کے لئے جو کام کئے تو قوم نے اس الیکشن میں شاندار استقبال کیا۔ اس ملک کو بے شمار خطرات اور چیلنج درپیش ہیں، ہم سمجھتے ہیں اگر ان دس نکات پر عمل کرلیا جائے تو ملک وقوم خوشحال ہوسکتے ہیں۔ (1)قرآن وسنت کا عملی نفاذ۔ (2)ملکی قوانین کی مکمل پاسداری۔ (3)امن وامان۔ (4)بم دھماکوں اور ڈرون حملوں کا خاتمہ۔ (5)بیرونی مداخلت کا خاتمہ۔ (6)کرپشن، لوٹ مار کا خاتمہ۔ (7)داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ۔ (8)بلا امتیاز معیارتعلیم۔ (9)عصبیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا خاتمہ۔ (10)بجلی، گیس، پانی کی فراوانی اور انصاف سب کے لئے یکساں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین