• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیڑھ برس ہونے کو ہے جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وفاقی وزراء اور سیکرٹریوں کے لشکر سمیت دو روز کوئٹہ میں قیام کیا، کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا۔ بلوچستان کے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ آغاز حقوق بلوچستان پر عمل درآمد کی رفتار کو چیک کیا گیا، بڑے دعوے کئے گئے کوئٹہ پورے دو روز ہوٹروں کی آوازوں کا مسکن بنا رہا مجھے جب بھی خاص لوگوں سے فرصت ملتی تھی میری کوشش ہوتی تھی کہ عام مگر پڑھے لکھے لوگوں سے ملا جائے۔ دو روز میں میرے لئے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ کوئٹہ کبھی امن کی آماجگاہ رہا ہے، یہاں محبتوں کا بسیرا رہا ہے، یہاں محبتیں پلتی بڑھتی اور پروان چڑھتی رہی ہیں۔ یہاں کے لوگ انگریزوں اور زبان کی قید سے آزاد تھے، وہ اس بات کی پروا کئے بغیر محبت کرتے تھے کہ سامنے والے شخص کی زبان کیا ہے، نسل کیا ہے؟ مگر افسوس آج کوئٹہ میں یہ سب کچھ نہیں آج وہاں زبانوں اور نسلوں کی دیواریں ہیں، آج وہاں محبت نہیں نفرت کی فضا ہے یہی نفرت وہاں موت لے آئی ہے۔ آج کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب اور کہاں موت کی آندھی چلنا شروع ہوجائے، کونسی سڑک مقتل میں بدل جائے۔
ڈیڑھ برس قبل بہت سے پنجابیوں نے کراچی کی جانب ہجرت کی تھی یہ ان پنجابیوں نے ہجرت کی تھی جو صاحب ثروت تھے مگر بہت بڑی تعداد کوئٹہ ہی میں رہ گئی تھی لیکن مقدر کا کھیل دیکھئے جو کراچی چلے گئے ان کے سامنے بھی موت وحشت بن کر کھڑی ہوگئی جو کوئٹہ میں رہ گئے انہیں بھی موت کا رقص نظر آیا شاید مقدر کے کھیل کو سمجھنا انسانوں کے بس سے باہر ہے۔ آج اگر کوئٹہ لہو لہو ہے تو کراچی مقتل گاہ بن چکا ہے۔ لاشیں دفنا دفنا کر لوگوں کے کندھے تھک گئے ہیں مگر موت کا کھیل تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ دونوں صوبائی حکومتوں کے بارے میں سپریم کورٹ بہت کچھ کہہ چکی ہے۔ باوجود کہنے کہ اگر حالات درست نہ ہوں تو پھر چارہ گر کوئی اور علاج تجویز کردیں گے۔
ان حالات میں جب درختوں پر پرندے بھی خائف ہوں، داد دینی چاہئے اسلم رئیسانی کو کہ انہوں نے بلوچستان اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے اگرچہ اعتماد کے اس ووٹ میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی اکثریت نہیں مگر پھر بھی بقول رئیسانی صاحب ووٹ ووٹ ہوتا ہے وہ جیالے کا ہو یا مولوی کا۔ اسلم رئیسانی کو زیادہ جوش و خروش سے جے یو آئی (ف) کے لوگوں نے ووٹ دیئے۔ خیر ویسے بھی مولویوں کا ووٹ لینا کونسا مشکل کام ہے وہاں سارا کام، دام کا ہے، اسلم رئیسانی پولیس میں ڈی ایس پی رہ چکے ہیں انہیں کام اور دام دونوں کی بہت اچھی تعریف آتی ہے۔ آنے سے یاد آیا کہ رئیسانی صاحب کوئٹہ کم ہی آتے ہیں زیادہ تر اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ بہت پرانی بات ہے میرا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ نئی شادیوں کی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ کسی دوسرے شہر میں زیادہ رہنا پڑتا ہے۔ اس کی بات کی صداقت کا اب پتہ چلا ہے کہ انسان وزیر ہو یا وزیر اعلیٰ اسے دوسرے شہر کو مسکن بنانا ہی پڑتا ہے۔
امیر تیمور کی کتاب گواہ ہے کہ تیمور تاجروں سے نہیں الجھتا تھا، وہ تاجروں کو تہ تیغ بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ تاجروں کو زندہ رہنا چاہئے، ان کے دم قدم سے زندگی رواں رہتی ہے، کاروبار حیات رواں رہتا ہے۔ تیمور کے عہد میں جب انسان مولی گاجر کی طرح کٹتے تھے، تاجر بچ جاتے تھے۔ آج تاجروں کو خود بچنا پڑتا ہے۔ کراچی کے تاجروں نے اپنے بچاؤ کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے وہ ہر مہینے بھتہ جمع کرکے خود بھتہ خوروں کے حوالے کیا کریں گے۔ اس فیصلے تک پہنچنے کیلئے تاجروں نے کئی منازل طے کیں، انہوں نے بار بار حکومتوں سے مطالبہ کیا مگر کچھ نہ ہوسکا، جب مطالبے ہار گئے تو ہڑتالیں شروع ہوگئیں جب ہڑتالوں سے بھی کچھ نہ ہوسکا تو کراچی کا تاجر بھتہ دینے کیلئے خود آگے بڑھ گیا۔ وہ ایسا کیوں نہ کرتا جب موت وحشت بن کر گلیوں کی مسامت بن جائے تو پھر ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کراچی میں مافیا کا راج ہے وہاں ہر وقت موت تقسیم ہوتی ہے۔
حالات کی سنگینی دیکھ کر میں نے علم جفر کے ماہر سراج شاہ سے رابطہ کیا کہ وہ بتائیں کہ آنے والے حالات کیا ہیں۔ انہوں نے جو تصویر کشی کی ہے وہ کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے اس تصویر میں بدامنی ہے، تخریب کاری، دہشت گردی اور لوٹ مار میں اضافہ ہے، معاشی حالات میں ابتری ہے، موت اور کشیدگی کا کھیل ہے، حادثات کی بھرمار ہے… جب یہ سب کچھ ہوگا تو پھر کچھ اور بھی ہوگا۔ اگرچہ وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کوشاں ہیں کہ کسی طرح امن و امان بحال ہوجائے انہوں نے افسران کیلئے بھی سختی سے میرٹ پالیسی پر عمل درآمد کروایا ہے۔ وزیراعظم کی کوشش ہے کہ اہل افسران کو گلگت بلتستان اور بلوچستان بھیجا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تمام سفارشوں کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اس کام سے گلگت بلتستان میں تو بہتری آئی ہے، پتہ نہیں بلوچستان میں کب بہتری آتی ہے۔
امن و امان خالصتاً صوبائی معاملہ ہے مگر پھر وزیراعظم راجہ پرویز مشرف اس میں خاص دلچسپی اس لئے لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح امن و امان کی بحالی ہو۔ یہاں میں ایک تذکرہ ضرور کروں گا کہ وزیراعظم کے خیالات نیک سہی، ان کی امن و امان کی بحالی کی خواہش بھی درست لیکن یہ اس وقت ہوگا جب ہر صوبے کا وزیراعلیٰ اپنے ہیڈکوارٹر میں ہوگا، جب ہر صوبے کا وزیراعلیٰ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا، جب وزیر اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے تو وہاں درجنوں گروپ کام کررہے ہیں، مافیاز بھی ہیں اور مافیا کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں۔ کراچی میں ایک ڈان نہیں کئی ڈان ہیں مختلف محلوں میں مختلف گروہوں کا راج ہے ہر کوئی اپنی راج دھانی سے بھتہ وصول کرتا ہے۔ تقسیم در تقسیم نے پورے کراچی کو تقسیم کردیا ہے۔ اوپر سے موت کی وحشت بھی ہے کہ…
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
تازہ ترین