• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی منڈی میں کچھ عرصہ سے تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں لیکن پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرولیم ڈویژن کو سمری ارسال کی ہے جس کے تحت یکم اگست سے پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں2روپے فی لیٹر اضافہ تجویز کیا گیا ہے تاہم مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ادھر نیپرا نے بجلی کی قیمت میں51پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے اور اس سلسلے میں نوٹی فیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ اضافہ جون کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے جو تقسیم کار کمپنیاں اگست کے بلوں میں صارفین سے وصول کریں گی۔ اطلاعات کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی تجویز نئی منتخب حکومت پر چھوڑنے پر بھی غور کیا گیا تھا لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے ذمہ داروں نے نگران حکومت پر زور دیا کہ وہ سخت سیاسی فیصلے اس پر نہ چھوڑے اور جو کرنا ہے خود ہی کرلے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اوگرا پٹرولیم ڈویژن اور بعض آئل کمپنیوں نے باہمی مشاورت سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں زیادہ اضافہ تجویز کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے پٹرول ڈیزل اور مٹی کے تیل پر ناروا ٹیکسوں کا نوٹس لے رکھا ہے اس لئے اول الذکر دو آئٹموں پر صرف دو روپے اضافے پر اکتفا کیا گیا اور مٹی کے تیل کو جو زیادہ تر غریب لوگ استعمال کرتے ہیں مستشنیٰ رکھا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نگران حکومت پہلے ہی اوگرا کی سفارش پر 30جون کو پیٹرول کی قیمت میں 7.54روپے فی لیٹر ڈیزل کے نرخ میں4روپے اور مٹی کے تیل پر ساڑھے تین روپے فی لیٹر اضافہ کر چکی ہے تاہم سپریم کورٹ کی برہمی پر نرخوں میں کچھ کمی بھی کر دی تھی، حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر ٹیکس الگ سے وصول کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کو پر لگ گئے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں تقریباً 8لاکھ ٹن ماہانہ ہائی سپیڈ ڈیزل اور سات لاکھ ٹن پیٹرول کی کھپت کا تخمینہ ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اثر تمام زرعی و صنعتی پیداوار اور ٹرانسپورٹ کی لاگت پر پڑتا ہے اس کے نتیجے میں بسوں ٹیکسیوں اور رکشوں کے کرایوں سمیت اشیائے خوردنی اور دوسری ضرویات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے پچھلے دور سے اب تک پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں ہونے والے اضافے سے تعمیراتی سامان، ٹرانسپورٹ کے کرایوں، گیس سیلنڈر ادویات، چاول، گوشت، پیاز، ٹماٹر، کیلے، سبزیوں، بچوں کے جوتوں کی قیمتوں، درزی کی اجرت اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں عام آدمی کی سکت کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف جون 2018میں مہنگائی کی شرح میں 5.21 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو پچھلے5سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 6کروڑ افراد غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے یہ لوگ کن اذیتوں کا سامنا کرتے ہوں گے۔ ملک میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے جو عوام کو غربت کے شکنجے سے نکالنے کی دعویدار ہے اس کے متوقع وزیراعظم عمران خان کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے ملکی معیشت پر توجہ دینا ہو گی اور خاص طور پر مہنگائی کو روکنا ہو گا۔ عام انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کی جھلک دکھائی دینے پر سٹاک مارکیٹ میں تیزی آگئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت بڑھ رہی ہے یہ ایک اچھا شگون ہے توقع کی جانی چاہیئے کہ نئی حکومت حالات کو مزید سازگار بنائے گی جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی اور عوام کے مسائل کم ہوں گے۔ نئی حکومت اس وقت تشکیل کے مرحلے میں ہے اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ اگلی حکومت جلد سے جلد امور مملکت سنبھال لے ۔

تازہ ترین