• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25؍ جولائی 2018کے عام قومی انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملک کے وزیراعظم ہو سکتے ہیں، صوبوں خصوصاً پنجاب میں ان کی حکومت کا قیام بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر انتخابی نتائج کے خلاف قومی سطح پر تحریک چلانے کا اعلان کر چکے ہیں، اس موضوع پر انہوں نے بعض جذباتی اعلانات بھی کئے تاہم قطرے کے گہر ہونے تک اس پر کیا گزرتی ہے، یہ مجوزہ تحریک کی عملی صورتحال ہی واضح کر سکے گی، امید ہے آئندہ دو ہفتوں کے اندر اندر پاکستان کی نئی منتخب حکومت اور صوبائی منتخب حکومتوں کے معاملات عمل پذیر ہو چکے ہوںگے۔
پاکستان کےمعتبر کالم نگار اور دانشور سہیل وڑائچ صاحب نے چند ماہ قبل ’’ن‘‘ لیگ کے بارے میں جولائی اگست 2018تک ’’پارٹی از اوور‘‘ کے امکانات پر یقین کی حد تک بات کی تھی، اقتدار سے محرومی کی صورت میں تو واقعی ’’پارٹی از اوور‘‘ کی پیش گوئی پوری ہوئی تاہم قومی سیاست میں ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر ’’پارٹی از اوور‘‘ کی نوبت شاید نہ آ سکے، بہرحال یہاں بھی معاملہ قطرے کے گہر ہونے تک ہی فیصل ہو سکے گا۔
اخباری خبروں، تبصروں، اطلاعات اوپیشین گوئیوں کے مطابق وفاق میں حکومت بنانے کے لئے عمران نے ساتھیوں کو ٹاسک دیدیا ہے تحریک انصاف اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق ہر سیاسی جماعت سے عملاً رابطے کر رہی ہے، ’’تخت لاہور‘‘ کے لئے لڑائی اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے، اس کالم کی اشاعت تک اس تاریخی لڑائی کی شکل صورت یقین کی حد تک سامنے آ جائے گی۔
عام انتخابات کے انعقاد پر یورپی یونین الیکشن آبزرویشن نے اخباری رپورٹ کی رو سے ’’مجموعی طور پر پاکستان کے موجودہ منعقدہ انتخابات پر اطمینان کا اظہار کیا یہاں تک کہا کہ ’’انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کاوشیں متاثر کن اور قابل تعریف رہیں، الیکشن کے دوران چھوٹی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، بہرحال مجموعی نتائج قابل اعتماد ہیں، گو الیکشن کے انعقاد سے پہلے تمام جماعتوں کو یکساں مواقع نہیں ملے۔ فوج نے اپنے فرائض پوری تندہی سے ادا کئے‘‘، قومی انتخابات کے حوالے سے ہی ’’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی بھی ایک آبزرویشن سامنے آئی جس کے مطابق پولنگ اسٹیشنوں پر طویل قطاروں نے ثابت کیا کہ مسائل کے باوجود لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ ’’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک‘‘ (فافن) انتخابی مشاہدات کا خلاصہ یہ رہا کہ ’’انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر اور گنتی کے عمل میں غیر شفافیت کی شکایات کے علاوہ الیکشن کا دن پُرامن اور بڑے تنازعات سے پاک رہا۔ انتخابات 2018میں مردوں کا ووٹر ٹرن آئوٹ 58اعشاریہ 3فیصد اور خواتین کا 47فیصد رہا۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کے دن نتائج کے اعلان میں تاخیر کے علاوہ کوئی قابل ذکر واقعہ سامنے نہیں آیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ فوج، پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی وجہ سے عوام میں احساس تحفظ بڑھا اور ووٹروں کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالا، البتہ فافن کی رائے میں ’’الیکشن کمیشن کو امیدواروں کے بعض انتخابی نتائج کے سلسلے میں تحفظات دور کرنا ہوں گے اور انتخابات کے معیار پر لگے داغوں کے ذمہ داروں کے خلاف آئینی انصاف کا ایسا مظاہرہ کرنا ہو گا کہ عملاً عوام جس کی تائید کریں۔
2018کے موجودہ قومی انتخابات میں شاید سب سے طاقتور سیاسی منظر پاکستان پیپلز پارٹی، چیئرمین بلاول بھٹو اور مدبر سیاستدان آصف زرداری کا رہا۔ جو لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کو ’’مردہ گھوڑا‘‘ تصور کر چکے تھے وہ اس کے سیاسی جوبن دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے دوروں میں میڈیا سے گفتگو کے دوران خود کو واقعتاً بھٹو صاحب کی سیاسی وراثت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ثابت کیا‘‘
بھٹو خاندان کا تاریخی قصہ بھی بہت حیرت انگیز ہے۔ جب بلاول بھٹو نے ان دنوں میں اپنے لب و لہجے کی مضبوطی اور انفرادیت سے سب کو متاثر کیا تب سب کو یہ ضرور یاد آیا کہ ’’وہ اس شخص کا نواسہ ہے جسے 4؍ اپریل 1979کی رات پھانسی دیدی گئی۔ پھر رات کے اندھیرے میں فوج کے پہرے میں میت گڑھی خدا بخش پہنچائی گئی چند اہل خانہ کو بند تابوت میں چہرے کا آخری دیدار کرایا گیا، ایک پرانی چارپائی پر تابوت رکھ کر جنازہ گڑھی خدا بخش لایا گیا، اِدھر اُدھر کے کچھ لوگ اکٹھے کر کے نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ خاندان کے کسی اہم فرد کو شریک نہ ہونے دیا گیا۔ کسمپرسی کے اسی عالم میں انہیں قبر میں اتار کر وہاں پہرہ لگا دیا گیا جو کئی ماہ کے بعد اٹھایا گیا۔ والدہ نوخیز عمری میں شہید کر دی گئیں لیکن جب بلاول پریس سے بات کرتا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی عظمت کا وجود ان دونوں کی میتوں کے تاریخی آسمان سے طلوع ہوتا دکھائی دیتا۔
پاکستان کے 2018کے ان انتخابات میں غیر جمہوری قوتوں اور افراد کو شکست ہوئی، ’’ن‘‘ لیگ کے گزشتہ پانچ برسوں میں اسے پاکستان پیپلز پارٹی ہی کی طرح اسے نشانے پر رکھا گیا۔ تین بار کا منتخب وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی آج بطور سزا یافتہ جیل میں ہیں، ’’ن‘‘ لیگ نے قومی سطح پر موثر ترین کارکردگی کا ثبوت دیا مگر جمہوریت مخالفوں نے بیسیوں فرضی اور غیر فرضی واقعات کی بنیاد پر جمہوریت کے نظام ہی کا بوریا بستر لپیٹے جانے کا مشن اٹھا لیا، صد شکر یہ سب افراد اور ایسی تمام قوتیں ناکام ہوئیں اور جمہوری تسلسل برقرار رہا، یہ جمہوری تسلسل میں ہی دراصل پاکستان کی بقاء ہے۔ 1971میں اسی جمہوری تسلسل کو تسلیم نہ کرنے اور زور زبردستی سے عوام کے ووٹ کے بجائے بندوق کی نوک پر نظام چلانے کی غلطی نے پاکستان کو دو لخت کر دیا، چنانچہ اس بار جمہوری تسلسل قائم رہا، یہ وہ بنیادی سچائی ہے جس سے پاکستان کی سلامتی اور عالم اسلام میں اس کی ممتاز ترین حیثیت برقرار ہے۔
ایک عاجزانہ سی قیاس آرائی ہی ابھی ہے، پاکستان میں سیاسی ادارہ مستحکم اور غیر سیاسی ’’ادارے‘‘ کمزور ہو رہے ہیں، چند ماہ میں ’’ن‘‘ لیگ کے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود اس کی سیاسی طاقت ہماری اس قیاس آرائی کے عملی مظاہر آپ کے سامنے لے آئے گی، غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ابھی ’’قومی جنگ‘‘ طویل ہے، پھر بھی امید کا سورج جمہوریت پسندوں کیلئے ہی طلوع ہواہے، غیر جمہوریت پسندوں کے لئے نہیں۔
2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کو حلف اٹھانے سے منع کرنے اور ان انتخابات کو کالعدم قرار دینے جیسی پالیسیوں کے سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ’’ن‘‘ لیگ نے تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بقول ’’سیاسی جماعتوں کو پارلیمان کا فورم کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے!‘‘ دونوں جماعتوں میں ان انتخابات کے متنازعہ معاملات کو پارلیمان کے فورم پر یا دوسرے آئینی فورمز پر لڑنے کے حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین