• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو ملک حقیقی جمہوریت میں رچ بس گئے ہیں وہاں نئے انتخابات کے لئے چند ہفتے درکار ہوتے ہیں اور سارے معاملات آناً فاناً خوش اسلوبی سے طے ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مہینوں سے انتخابات کا غلغلہ ہو رہا ہے اور تاریخ ابھی تک متذبذب ہے۔ پاکستان کی اس طویل اور غیر یقینی روش کو دیکھتے ہوئے ہمارے ایک کرم فرما نے امریکہ میں آنے والے تباہ کن سیلابی طوفان سینڈی کی وجہ سے بڑے وثوق سے یہ اعلان فرما دیا کہ اب امریکہ میں انتخابات وقت پر نہیں ہو سکتے“ جبکہ وہاں دو دن کے تعطل کے بعد ساری انتخابی سرگرمیاں بحال ہو گئیں اور ان دو دنوں میں بھی صدر امریکہ سب سے زیادہ نقصان زدہ علاقے نیو جرسی پہنچ کر مقامی گورنر کے ساتھ تباہ ہونے والوں کی بحالی میں مصروف رہے۔ نیویارک میں جن علاقوں میں زیادہ تباہی آئی تھی وہاں متاثرہ ووٹروں کی رائے دہندگی کے خصوصی انتخابات کرا کر انتخابات بروقت کرائے اور پوری امریکی قوم کامیابی سے ہمکنار ہوئی، یہ ہے زندہ قوموں کا عمل اور کار گزاری۔
ہمارے ہاں کافی عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے مگر ”وقت نامعلوم“ ہے اپنے اپنے طور پر پیش قیاسیاں ہوتی رہی ہیں۔ ’کسی نے کہا دسمبر، کسی نے جنوری اور کسی نے مارچ کا مژدہ سنایا۔ اصغر خان کیس میں جو پنڈارہ کھلا تو وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ بیان سامنے آیا کہ مارچ 13کو پی پی پی کی موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور کا اختتام ہو جائے گا اس کے بعد ہی نگران حکومت قائم ہو گی۔ تاریخ کا انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ اسی لئے ایک سربرآوردہ سیاست دان نے کہا پارلیمنٹ کی مدت18مارچ تک ہے اگر حکومت انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سسپنس (گومگو کی حالت) ختم کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے تو بہت اچھا ہو گا اور اس سے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی جبکہ بعض سیاست دانوں کی خواہش ہے کہ انتخابات جتنی جلد ہو جائیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔
انتخابات کے سلسلے میں چند سوال سیاست دانوں اور عوام کے ذہنوں میں کلبلاتے رہے ہیں مثلاً
1۔ سب سے پہلا سوال متفقہ طور پر آزاد اور بے لاگ الیکشن کمشنر کے تقرر کا تھا جو بحمداللہ بخیر و خوبی طے ہو گیا مگر ابھی یہ سوالات زیر بحث ہیں۔
2۔ اس کی کیا ضمانت کہ انتخابات واقعی صاف و شفاف ہوں گے۔ اس غرض سے الیکشن کمیشن نے حکومت سے دو ارب روپے طلب کئے تھے تاکہ صحیح نتائج کے لئے ووٹنگ مشین خریدی جائیں مگر حکومت کی طرف اس کی پذیرائی نہیں ہوئی۔3۔ اب تک انتخابات بیورو کریسی کی نگرانی میں ہوا کرتے تھے کمیشن کو بیورو کریسی پر اعتماد نہیں اس لئے اس نے چیف جسٹس سے استدعا کی تھی کہ وہ ججز کو نگرانی کا کام سونپنے کی اجازت دے دے، عدالت سے اس کا جواب ابھی تک موصول نہیں ہوا۔4۔ کمیشن کی یہ بھی خواہش ہے کہ انتخابات کے دوران تمام ریاستی انتظامی مشینری جو انتخابات میں کام کر رہی ہو، کمیشن کے ماتحت کر دی جائے جس کو من و عن تسلیم کرنا حکومت کے لئے شاید ممکن نہ ہو۔5۔ یورپی یونین کی جانب سے آنے والے انتخابات کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے ان کے 65مبصرین انتخابات کا جائزہ لینے پاکستان آئیں گے وہ عملے کو ٹریننگ بھی دیں گے اور انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے کمیشن کی معاونت کریں گے۔ جہاں تک جائزہ اور تربیت کا تعلق ہے وہ تو مناسب ہے مگر انتخابات میں عمل دخل تو غیر مناسب ہے اس کی اجازت نہیں ہونا چاہئے ۔6۔ اس مرتبہ ”جعلی انتخابات “ کی ایک نئی اصطلاح سیاسی حلقوں میں گھوم رہی ہے۔اس کا مطلب منتخب نمائندوں کے بجائے غیر منتخب افراد کو اسمبلی میں پہچانا ہے، یہ تو صاف شفاف انتخابات کی صریح ضد ہے۔7۔ قومی انتخابات سے پہلے نہ تو بلدیاتی انتخابات ہو سکتے ہیں اور نہ کوئی نیا صوبہ یا صوبے تشکیل پا سکتے ہیں۔ کہیں اس بہانے انتخابات ایک سال آگے تو نہ بڑھا دیئے جائیں گے، ایسی صورت میں عوامی ردعمل بہت شدید ہو گا ۔
8۔ گو بعض لوگ کمیشن کو بے جان باور کرتے ہیں کیونکہ اس کو کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں۔ اس نے بڑا تفصیلی ضابطہ اخلاق تیار کر لیا ہے مگر اس پر پورے طور پر عمل کی کیا ضمانت ہے۔9۔ کمیشن کے زیر غور یہ تجویز بھی ہے کہ بلوچستان کے ہر ضلع کو ایک نشست دے دی جائے یوں قومی اسمبلی میں اس کی14نشستوں کے بجائے30نشستیں ہو جائیں گی اور قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھ جائیں گی کیا یہ قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر ممکن ہو گا ؟10۔ ووٹر کی فہرستوں میں ہر ووٹر کی تصویر ہو گی،یہ شناختی کارڈ والی تصویر ہی ہو گی مگر اس سے جعلی ووٹنگ کا بڑی حد تک سدباب ہو جائے گا۔ 11۔ کمیشن کے سیکرٹری نے بتایا کہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اس کا مشاورتی عمل مکمل ہو گیا ہے۔ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ساتھ ہی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کی تیاری کا سلسلہ نادرا اور سیاسی پارٹیوں کے عمل سے اس وقت تک جاری رہے گا جب تک الیکشن شیڈول کا اعلان نہ ہو جائے اور ووٹروں کی فہرست میں نئے ووٹروں کا اندراج ہوتا رہے گا۔
12۔”لوٹے ” کا انتخابی نشان کسی سیاسی پارٹی کو قبول نہیں کیوں نہ اس کو نشانی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔13۔ کمیشن کے پاس193چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں، انتخاب میں شرکت کی اجازت صرف دس بارہ بڑی پارٹیوں کو ملنا چاہئے۔14۔ کمیشن کا یہ فیصلہ کہ جس انتخابی حلقے میں رجسٹرڈ خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم ہوں گے اس کا انتخاب مسترد کر دیا جائے گا کیا بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع اور فاٹا کے علاقوں میں اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا ۔ بالآخر اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟15۔ عدالت عالیہ نے حکم دیا تھا کہ ایوان صدر میں سیاسی سیل بند کر دیا جائے، ایک اطلاع ہے کہ یہ اس نوٹس سے پہلے بھی بند کر دیا گیا تھا دوسری اطلاع ہے کہ یہ موجود ہے کیونکہ اس کو بند کرنے کے لئے کوئی حکم نامہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔16۔ اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی آ گیا اس میں ان لوگوں کے نام بھی ہیں جن پر ایجنسیوں سے رقم لینے کا الزام ہے، کیا ان لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا ؟
17۔ عدالت عالیہ کا حکم ہے کہ صدر مملکت کو پی پی پی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے فی الحال تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوا نیز ان کو کسی مخصوص سیاسی پارٹی کی حوصلہ افزائی سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ان کا عہدہ غیر جانبدارانہ نوعیت کا ہے۔18۔ دہری شہریت یا سمندر پار پاکستانیوں کا مسئلہ طے ہو گیا ان کے نام ووٹر لسٹوں میں ہیں وہ ملک میں آ کر ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن آئندہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے ۔19۔ فی الحال یہ طے ہے کہ امیدوار ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن نہیں لائیں گے اور کمیشن کے لئے بھی ملک بھر میں یہ ذمہ داری قبول کرنا ممکن نہ ہو گا کمیشن نے اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں سے رائے طلب کی ہے۔20 ۔انتخابی ضابطہ اخلاق کا اطلاق نگراں حکومت پر بھی ہو گا صدر اور گورنر اپنے دورے انتخابی مہم کے لئے استعمال نہیں کر سکیں گے۔21۔ انتخابات کو ملتوی کرنے کے لئے کوئی بہانہ عوام اور سیاست دانوں کو قبول نہیں ہو گا بلکہ عدالت عالیہ نے تو یہ فیصلہ بھی سنا دیا ہے کہ ناقص ووٹر فہرستوں کی بنا پر انتخابات ملتوی نہیں ہونا چاہئے۔
انتخابی کمیشن نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ انتخابات آزادانہ اور صاف و شفاف ہوں اب وقت پر دیکھنا ہو گا کہ کامیابی کا فی صد کیا رہتا ہے اور اسی پر آئندہ کی سیاست اور معیشت کا انحصار ہے۔
تازہ ترین