• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سینئر صحافی کے مطابق چیف جسٹس اور آرمی چیف کے حالیہ بیانات سے پیدا ہونے والے ٹکراو کے تاثرسے اسلام آباد کے ریڈ زون میں قیام پزیر ایک اہم شخصیت بہت خوش تھی جن کا کہنا تھا اچھا ہے دونوں لڑیں۔ یہی خواہش سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کچھ نام نہادچمپئینز اور میڈیا میں موجود ایک مخصوص گروہ کی تھی مگر ان سب کے ارمانوں پر پانی پھر گیا۔ وہ سب کچھ نہ ہوسکا جس کی ان کو شدید خواہش تھی۔ میڈیا میں موجود ایک طبقہ نے تو پورا زور لگا دیا کہ عدلیہ اور فوج کو لڑادیا جائے۔ کچھ انگریزی اخبارات نے تو دونوں اداروں کے سربراہوں کو آمنے سامنے بھی کھڑا کر دیا مگرکچھ حاصل نہ ہوا۔ بیچارے ناکام و نامراد ہی ہوے۔ چاہے عدلیہ ہو یا فوج دونوں اداروں کے ذمہ دار جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کے کون کون سے چمپئین آزاد عدلیہ اور پاک فوج کے کتنے ہمدرد ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کے وہ کون کون سے صحافی اور سول سوسائیٹی کے کرتے دھرتے ہیں جن کا بغض ان ریاستی اداروں کے خلاف کبھی چھپے نہیں چھپتا۔ ان کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ ، اُن کا لب و لہجہ اور اُنکے لکھے سے سب ظاہر ہے کہ وہ ان قومی اداروں کی استحکام کے کتنی خواہش رکھتے ہیں۔ڈوگر کورٹ پر تو کبھی وہ معترض نہ ہوے مگر موجودہ آزاد عدلیہ پر ان کے اعتراضات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے اور کسی نہ کسی حیلے بہانے وہ عدلیہ کو کوستے ہی رہتے ہیں۔ فوج کو تو وہ پاکستان کی ہر خرابی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ایسے میں چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات نے گویا کہ ان فتنہ بازوں کو سنہری موقع فراہم کر دیا کہ وہ جلتی پر تیل ڈال کر دونوں اداروں میں ایسی لڑائی کروا دیں کہ دونوں ایک دوسرے کی تباہی کا ذریعہ بن جائیں تاکہ اس ملک کی بنیادوں اور اس کے نظریہ کو تباہ کیا جا سکے جو پاکستان کے دشمنوں کی بڑی خواہش ہے۔ہم میں سے کون ایسے چہروں سے ناواقف ہے جو پاکستان کی اسلامی اساس کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے کتنے میر صادق اور میر جعفر ہم میں موجود ہیں جو امریکا کی خواہش کے مطابق پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی میں ایسی ”اصلاحات“ کے داعی ہیں جن کا مقصد ان اداروں کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے تا کہ پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ دنیا کے واحد ایٹمی اسلامی ریاست کو اُس کی اس صلاحیت سے محروم کیا جا سکے اور ہمیں ہمشہ ہمیشہ کے لیے ہندستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
شر پھیلانے والوں کی خواہش اپنی جگہ مگر ایک طرف سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوے فوج کے ادارے کی تعریف کی اور 1990 کے الیکشن میں سیاستدانوں کو پیسہ دینے کے تمام معاملہ کی ذمہ داری انفرادی طور پر جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی پر ڈالی اور اس گندگی کی چھینٹ تک سے فوج اور آئی ایس آئی کے اداروں کو پاک رکھا حالاں کہ کئی شرپسندچاہتے تھے کہ عدلیہ کے ذریعے ان اداروں کو اس گند میں جھونکا جائے۔ دوسری طرف جیسے ہی میڈیامیں یہ تاثر دیا جانے لگا کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس آمنے سامنے آ گئے نہ صرف آئی ایس پی آر کے حکام نے میڈیا کو یہ وضاحت کی کہ آرمی چیف کے بیان کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے خود بھی ایک شخصیت سے بات کرتے ہوے یہ کہا کہ اُن کے بیان کا غلط تاثر پیش کیا گیااور یہ کہ وہ ایک ایسی عدلیہ کے خلاف کیسے بات کر سکتے ہیں جس کی بحالی کے لیے اُن کا کردار سب کے سامنے ہے۔ اسی دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ میڈیا میں عدلیہ اور فوج کے متعلق غیر ذمہ دارانہ ہرزاہ سرائی کو روکنے کے لیے حکومت پیمرا سے متعلق کچھ اہم فیصلے کر سکتی ہے۔ پہلے میڈیا کو عدلیہ اوربالخصوص چیف جسٹس کو بُرا بھلا کہنے کے لیے استعمال کیا گیا اور بعدازاں فوج کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ عدلیہ کے خلاف میڈیا کے ایک مخصوص گروپ کی مہم سازی پر حکومت اور پیمرا ایک اسٹرٹیجی کے تحت تماشائی بنے رہے یہاں تک کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کو پیمرا اور حکومت کویہ احکامات جارے کرنے پڑے کہ وہ قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کریں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال نہ کیا جا سکے۔ فوج کے متعلق بھی میڈیا میں موجود ایک طبقہ نے حدوں کو پار کیا مگر حکومتی ذمہ دارخاموش رہے۔ مگر اب فوج نے بھی حکومت سے کہہ دیا ہے کہ مہربانی کر کے پیمرا کے ذریعہ قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے اور اس کے لیے اگر موجودہ چیئرمین پیمرا کو تبدیل بھی کرنا پڑے تو ایسا فوری کیا جائے۔ باقی رہا میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی کا مسئلہ توشائد اس طرف بھی کچھ کرنے کے لیے کسی ذمہ دار کا ضمیر جاگ جائے جس کے لیے اب تو صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین