• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پودوں کی بہت ساری اقسام ہیں جو صرف خاص علاقوں میں اگائی جا سکتی ہیں۔ان پودوں کو دوسرے علاقوں کی آب و ہوا یا زمین راس نہیں آتی اور جلد ہی مرجھانہ شروع کردیتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نئی ابھرنے والی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے کہ اس کی کھلی کیاریاں دیکھ کر بہت سارے سیاست دانوں نے یہ سمجھا کہ وہ ان کیاریوں میں بروقت جگہ حاصل کرکے جلد خود کو سیاست کے قدآور درخت بنا لیں گے اور کچھ سیاست کے قدآور درختوں نے سوچا کہ پی ٹی آئی میں جہاں زیادہ تعداد چھوٹے چھوٹے پودوں کی ہے یا ڈرائنگ روم میں رکھے ہوئے ان گملوں کی ہے جو کتنی بھی خوشبو دیں یا خوشنما ہوں ان کی جڑیں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ان سیاست دانوں کی یہ سوچ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں تھی۔لیکن بات پھر وہی ہے کہ ہر زمین یا آب و ہوا پودے کو راس نہیں آتی۔اکتوبر کے پہلے عشرے میں پی ٹی آئی کے وزیرستان جانے کیلئے ملین مارچ نے بھی ایسے بہت سے غیر آب و ہوا کا شکار سیاسی پودوں کو مشکلات سے دوچار کیا۔پی ٹی آئی کے ایک قدآور اور تناور درخت کے بارے میں یہ خبریں کافی عرصہ سے آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی میں ریٹرن ٹکٹ پر آئے ہوئے ہیں اور کسی وقت بھی کسی تیسری منڈیر پر لینڈ کرسکتے ہیں۔ لیکن شاید ایسا نہ بھی ہو کیونکہ سیاسی مصلحتیں کچھ سے کچھ فیصلے کرا دیتی ہیں۔ یہ قدآور اور تناور سیاست دان اپنے حلقے میں مقبولیت رکھتے ہیں۔گفتگو کا فن جانتے ہیں، زراعت اور فنانس پر بڑا عبور رکھتے ہیں، خارجہ امور میں بھی انہوں نے رواں پنج سالہ دور میں کافی ایکسپوژر حاصل کیا ہے، بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنے کے اور امور خارجہ میں مصروفیت کے باجود اپنے کھیت کھلیانوں کو نہیں بھولتے اور وہاں ضرور جاتے ہیں، مزارعوں سے حال احوال پوچھنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی ماہرانہ مشاورت بھی دیتے ہیں اور سستی کاہلی یا غلطی پر ہلکی پھلکی سرزنش بھی کرتے ہیں لیکن یہ پی ٹی آئی میں ابھی مکمل طور پر فٹ نہیں ہوسکے ملین مارچ کے دوران بھی صورتحال کچھ ایسی ہی رہی۔مارچ کے بعد پی ٹی آئی کے ایک دوست اور کارکن کے ہاں جب عمران خان اور دوسرے رہنما کھانا کھا رہے تھے تو موصوف کھانے سے ہاتھ کھینچے بیٹھے تھے کہ کسی نے عمران خان کی توجہ ان کی طرف مبذول کرائی تو عمران خان نے ان سے پوچھا کہ آپ کھانا نہیں کھا رہے تو پیر و مرشد سیاسی رہنما نے ناراض ہوتے ہوئے کہاکہ کھانا نہیں کھائیں گے اور بطور احتجاج کھانا نہیں کھائیں گے کیونکہ ملین مارچ میں انہیں اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ ملین مارچ کے پروگرام میں اچانک تبدیلی کے بعد ٹانک کے ایک کھلے میدان کو عارضی جلسہ گاہ بنا دیا گیا اور اس پر اس طرح نشستیں نہ تھیں جو عموماً ایک منصوبہ بندی سے کئے جانے والے جلسے کے دوران ہوتی ہیں اس لئے کنٹینر کو عارضی اسٹیج کی شکل دے کر اس پر عمران خان نے خطاب کیا۔کچھ رہنماؤں کو نوجوانوں نے کندھوں پر اٹھاکر یا انہیں سپورٹ دیتے ہوئے اسٹیج پر چڑھا دیا۔ سیکورٹی کیلئے متعین نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسٹیج پر چڑھ گئی اس دھکم پیل میں یہ پی ٹی آئی کے رہنما اس اسٹیج پر نہ چڑھ سکے نفسانفسی کے اس عالم میں نوجوان کارکنوں نے بھی ان کو نظر انداز کردیا جس پر پیر و مرشد اس اسٹیج کے نیچے کھڑے ہو کر مٹھیاں بھینچتے رہے اور جلسہ کے بعد کھانے میں شریک ہونے سے انکار کردیا اس موقع پر عمران خان نے اپنی ٹیم کے ایک پرانے کھلاڑی سلیم ملک کا قصہ چھیڑ دیا سلیم ملک عمران خان کی قیادت میں کھیلتے رہے ہیں وہ خود بھی کپتانی کے عہدے پر فائز رہے ہیں بہت زبردست بیٹسمین تھے بلکہ ایک مرتبہ دورہ بھارت میں ان کے ایک بازو کے زخمی ہونے کی وجہ سے چڑھے ہوئے پلستر کے باوجود انہوں نے بیٹنگ کرکے ٹیم کیلئے قیمتی رنز اسکور کئے تھے۔ وہ ایک دوسرے معروف کرکٹر اعجاز احمد کے ہم زلف بھی ہیں اور انہوں نے راولپنڈی کے ایک معروف ڈاکٹر فیملی کے گھر شادی کی ہے لیکن جوئے میں ملوث ہونے کے الزام میں ان پر کرکٹ کھیلنے اور کرکٹ کے دیگر امور میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی تھی، اب کیونکہ ان پر سے پابندی ہٹ چکی ہے اور انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی آسامی کیلئے بھی درخواست دے رکھی ہے۔ عمران خان نے کھانا کھاتے وہاں حاضرین کو بتایا کہ کئی مرتبہ ہم میچ جیت کر خوشی مناتے اور انجوائے کر رہے ہوتے تو ہمارا ایک کھلاڑی ایک کونے میں منہ بسورے بیٹھا نظر آتا۔جب اس سے پوچھتا کہ بھئی تمہیں کیا ہوا ہے تو وہ کہتا کہ آپ نے میری کارکردگی کی علیحدہ سے تعریف نہیں کی اور یوں وہ کوئی نہ کوئی عذر پیش کرکے منہ بسورے بیٹھا رہتا۔وہ کھلاڑی سلیم ملک تھا عمران خان نے پیر و مرشد رہنما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ بھی پی ٹی آئی کے سلیم ملک ہیں کسی نہ کسی بات پر ناراض رہتے ہیں، قارئین کہیں یہ ناراضگی کہیں جدائی میں نہ تبدیل ہو جائے۔
تازہ ترین