• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوامی جمہوریہ چین نے درست طور پر امریکی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں، اسے ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کا یہ ردعمل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان پر سامنے آیا جس میں آئی ایم ایف کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو اس مقصد کے لئے امریکی ڈالر دینے کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ان کے ذریعے چین کے قرضوں کی ادائیگی کرے۔ ایسے عالم میں کہ ایک طرف آئی ایم ایف خود واضح کررہا ہے کہ پاکستان نے مالی معاونت کے لئےکوئی درخواست نہیں دی اورنہ ہی اس باب میں پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ کوئی مذاکرات ہوئے ہیں، دوسری جانب پاکستان میں عام انتخابات کے بعد کے منظر نامے میں مختلف سیاسی جماعتیں باہمی رابطوں کے ذریعے وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کی تیاریوں کے مراحل سے گزر رہی ہیں اور مشکل معاشی صورتحال کے باوجود تاحال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے نگراں عبوری حکومت یا متوقع قیادت نے کوئی رابطہ نہیں کیا، امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایسی باتیں سامنے آنا تعجب خیز ہے جنہیں چین جیسا ملک بھی ڈکٹیشن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قیام کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ جو ممالک مالی مشکلات کی صورتحال سے دوچار ہوں انہیں بیل آئوٹ پیکیج کے ذریعے معاشی دشواری سے نکلنے میں مدد دی جائے۔ اسلام آباد بھی اس نوع کے بارہ پیکچز سے فائدہ اٹھا چکا ہے اور اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں آئی ایم ایف کا ایک قرضہ قبل از وقت ادا کرنے پر جرمانے کا سزا وار بھی ٹھہرایا گیا۔ اسی ہفتے ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 12ارب ڈالر بیل آئوٹ مانگنے والا ہے یہ رقم 2013ء میں حاصل کردہ 5.3ارب ڈالر کے پیکیج کے دگنے سے بھی زیادہ ہے۔ بعض معاشی ماہرین بھی ملک میں جاری سنگین اقتصادی صورتحال کے پیش نظر رائے دیتے رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ پچھلے مہینوں اور ہفتوں کے دوران پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ میں کمی کے حق میں جو دلیلیں دی گئیں ان میں ڈالر کے ذخائر میں کمی کا نکتہ بھی شامل تھا۔ عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد چین کی طرف سے پیغام مبارکباد کے ساتھ دو ارب ڈالر کے اضافی قرض کی جو اطلاع سامنے آئی، وہ امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ میں کمی کا باعث بنی تاہم امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس اعلان سے کہ ’’ہم اس بات پر نظر رکھیں گے کہ پاکستان ممکنہ بیل آئوٹ پیکیج کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال نہ کرے‘‘ متوقع وزیراعظم عمران خان کے لئے چیلنجوں میں اضافہ محسوس ہورہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوان نے آئی ایم ایف پیکیج سے متعلق سوال کے جواب میں جہاں امریکہ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈ کو حکم دینے کی بجائے جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے لئے شراکت کرے وہاں یہ امید بھی ظاہر کی کہ پاکستان مناسب طریقے سے معاملات طے کرلے گا۔ دوست ملک چین کا یہ ردعمل پاکستان کے لئے مثبت پیغام کے ساتھ اعانت کا اشارہ بھی ہے۔ نئی سیاسی قیادت کو پچھلے کچھ عرصے سے جاری جن معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے ان کی سنگینی کم کرنے کے لئے عمران خان کو ایک طرف نگراں حکمرانوں کو اعتماد میں لینا ہوگا دوسری جانب اپنی پارٹی کے ایسے مذاکرات کاروں کو متحرک کرنا ہوگا جو سعودی اور چینی امداد میں مزید اضافے اور امریکہ میں لابی کے ذریعے آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کی راہ ہموار کرسکیں۔ بعض مبصرین عمران خان کی فنڈز جمع کرنے کی صلاحیتوں اور اوورسیز پاکستانیوں میں ان کی ممکنہ اپیل کی پذیرائی سے بھی توقعات وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر تمام پارٹیوں سے ورکنگ ریلیشن قائم کرنے اور قومی یکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جس چیلنج کا قوم کو سامنا ہے اس سے مل جل کر ہی نمٹنا ممکن ہوگا۔

تازہ ترین