• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے چارے پاکستانی، اب بھی نہ سمجھے جمہوریت کو تو کب سمجھیں گے۔ یہ جو انتخاب ہوا ، یہ انتخاب نہ تھا، انقلاب تھا۔ووٹ کی جو پرچی تیر بن کر ان کے کلیجے میں ترازو ہوگئی، اس کے چمتکار کا ان چیخ و پکار کرنے والوں کو اندازہ نہ تھا۔ تصویر کو بہت قریب سے دیکھا جائے تو اس کی تمام تر خوبیاں نظر نہیں آتیں۔ اصل نظارے کے لئے پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے۔ براہ کرم اس نظارے کے نام پر لندن آنے کی زحمت نہ فرمائیں۔ ہم یہیں سے بتادیتے ہیں کہ جن ووٹوں کی پرچیوں کی گنتی کے نام پر آپ ماتم کناں ہیں اور بالوں میں بھر نے کے لئے خاک اڑا رہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
آپ نے کوئی انقلاب دیکھا ہے؟ ہمارے جیتے جی دنیا میں کئی انقلاب آچکے ہیں۔ کبھی لوگوں کو بغداد کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور کبھی جوابی انقلاب لانے والوں کو ایران میں اتنی سولیوں پر چڑھایا گیا کہ پھندے کم پڑ گئے۔ یہ اور اسی طرح کے کتنے ہی انقلاب آئے۔ مگر ایک انقلاب اور بھی ہوتا ہے جو ذرا کم ہی آیا۔ خاموش انقلاب۔ دبے پاؤں آتا ہے یوں کہ پہلے سے کوئی آہٹ بھی نہ ہو۔ پھر اچانک پوری طرح نمودار ہوتا ہے تو دنیا دانتوں میں انگلیاں دبا لیتی ہے۔ جب مغربی اخبار سرخیاں لگا رہے تھے کہ پاکستان میں ’غلیظ ترین‘ الیکشن ہونے والا ہے، اس وقت اس شخص کے دل و دماغ میں کہ جسے ووٹر کہتے ہیں، فیصلے اضطراب کے عالم میں پہلو پر پہلو بدل رہے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب جھکّڑ چلتے ہیں تو ہوا میں شور ہوتا ہے، اُس روز بھی ہوا کے شور میں ایک ہی لفظ سنائی دے رہے تھا: تبدیلی۔دوبارہ عرض کرتا ہوں: تبدیلی۔ میں نے ستّر برسوں میں اتنی کثرت سے یہ نعرہ پہلے کبھی نہیں سنا۔ کسی نے کبھی کسی الیکشن سے پہلے گلی کوچوں میں لوگوں کو تبدیلی تبدیلی کی رٹ لگاتے سنا ہوتو کہے۔ پاکستان میں ووٹر ابھی تک یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ وہ کس کو چنیں گے ۔ برطانیہ میں تو لوگ اپنے گھروں کی اگلی کھڑکیوں میں اپنے پسندیدہ امیدوار یا پارٹی کے پوسٹر چپکاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس بار ووٹر تبدیلی کی بات کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔ اور یہ کہہ کر میں کوئی بڑا انکشاف نہیں کر رہا کہ لفظ ’تبدیلی‘ سے ان کی مراد ایسا رہنما تھا جس کی بار بار تاج پوشی نہ ہوئی ہو۔نام نہیں لے رہا کہ کتنے ہی لوگوں کے پہلو میں کانٹا سا چبھے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے، انتخابات سے پہلے خبر رسانی کے ذرائع یعنی میڈیا نے بڑا ہی بھر پور کردار ادا کیا۔ اس کا نعرہ بہت ہی غیر جانب دارانہ تھا ۔ یہ کہ نکلواور کسی کو بھی ڈالو مگر ووٹ ڈالو۔ اس کے نتیجے میں گھروں سے کون کون نکلا۔ کالج یونی ورسٹی کے لڑکوں لڑکیوں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالا۔ اس کے علاوہ کون نکلا؟ خواتین۔ جنہیں ایک سیاسی جماعت نے نکلنا سکھایا۔ کوئی تصور کر سکتاہے کہ اپر دیر یا دیر بالا میں جہاں عورتوں کو حکم تھا کہ خبر دار جو گھر سے قدم بھی نکالا، اس بار وہ نہ صرف نکلیں بلکہ امیدوار انہیں ان کے گھروں سے نکال نکال کر لائے۔ میں تو اس نوجوان خاتون کو سلام کرتا ہوں جسے ہم نے واکر کی مدد سے بمشکل چل کر پولنگ اسٹیشن تک آتے دیکھا۔ اس کے جیسے ووٹوں نے لفظ الیکشن کی تعریف ہی بدل ڈالی۔ کتنے ہی معذور اور اپاہج آئے ، عمر کے سوبرس پورے کر کے آگے بڑھ جانے والے لوگ تک آئے۔ اور پھر ہم نے اور ہماری آنکھوں نے وقت کی تاریکی کے باوجود اس حقیقت کو جھلملا تے دیکھا کہ ووٹ کو عزّت کیسے دی جاتی ہے۔
یہاں سے ہماری کہانی میں ایک نیا کردار داخل ہوتا ہے اور اس کا نام ہے دھاندلی۔ جب ووٹ کو عزّت اس ڈھب سے نصیب ہوئی کہ اُسے گنا گیا ، شمار کیا گیا، تولا گیا، ناپا گیا اور پھر جب نیا اجالا پھیلا تو منظر یک سر بدل چکا تھا۔ شعور نے اپنا اعجاز دکھایا۔ تبدیلی آگئی۔ اور اس شان سے آئی کے تبدیلی لانے والوں کو اس پر خواب کا گماں ہوا ہوگا۔ ہم نے ایک امیدوار کو یہ کہتے سنا کہ کراچی میں جیتنے والوں کو خود بھی یقین نہ تھا کہ وہ جیتیں گے۔ یہ کمال تھا ان راہ چلتے لوگوں کا جو ہر میڈیا والے سے کہہ رہے تھے کہ تبدیلی کا لمحہ آگیا ہے۔اب ہوا کیا ، میں منظر کشی کرتا ہوں۔ دروازے پر امیدوار نے دستک دی ۔ اندر سے صاحب خانہ نکلے، ان کے پیچھے خاتون خانہ اور ان کے پیچھے ان کے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں۔ ان سب نے امیدوار کا لیکچر سنا ۔ ہاں ہاں میں گردن ہلائی تاکہ وہ جلد سے جلد چلاجائے۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ لوگ اپنے فیصلے خود ہی کر چکے ہیں۔ پھر وہ مرحلہ آیا جب ووٹوں کے بکسے کھلے، پرچیاں باہر انڈیلی گئیں اور ووٹ گنے گئے تو وہ در در کی خاک چھاننے والے امیدوار کے سارے اندازوں کے برعکس نکلے۔ تو نتیجہ اس حکایت کا یہ نکلا صاحبو، دھاندلی تو ہوئی ہے لیکن اس بار کی یہ دھاندلی کسی اور نے نہیں، خود ووٹر نے کی ہے۔ اسے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے بچوں کا مستقبل عزیز تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک فرد کے ہاتھ میں ووٹ کی پرچی پر ٹھپّہ نہیں، تاریخ کی پیشانی پر اپنے شعورکی مہر لگا نے کا مکمل اختیار ہوتا ہے اور وہ بھی بلا شرکت غیرے۔ بات میں رنگ آمیزی کوئی ان سیاست دانوں سے سیکھے۔ ہوا یہ کہ جس عمار ت کے فرض کیجئے پانچ کمروں میں ووٹنگ ہورہی تھی وہا ں ہر کمرے میں پولنگ ایجنٹ بھی بیٹھے تھے۔ آخر جب یکجا کرکے ا سی عمارت کے ایک کمرے میں ووٹ گنے جانے لگے توایک پولنگ ایجنٹ کو وہیں ٹھہرنے اور باقیوں کو باہر چلے جانے کو کہا گیا ۔ اس منظر کو شکست کھانے والے نے یوں بیان کیا’ ارے صاحب ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا‘۔ ایسے میں کس پر کس کی مار، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
آخر میں ایک سرکاری افسر نے میری فیس بک پر سندھی حروف میں جو اردو پیغام بھیجا وہ نقل کر تا ہوں۔’’میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ بحیثیت پریذائڈنگ آفیسر میں نے اس سے زیادہ شفاف الیکشن کبھی نہیں دیکھے۔ عباس لغاری‘‘۔آخر میں ہر عباس لغاری کے لئے میری دعا۔ اﷲ کرے وہ جیتا رہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین