• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک پاکستانی کی حیثیت سے لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کہ خدایا میرا وطن بھی دنیا کی ترقی یافتہ مہذب اقوام جیسا ہو جائے۔ جہاں علم و دانش اور شعور کی سربلندی ہو، حریت ِفکر اور آزادیٔ اظہار پر سوائے ضمیر اور انسانی وقار کے کوئی قدغن نہ ہو۔ دھونس، دھاندلی اور جبر کا کہیں کوئی سایہ نہ ہو ترقی، خوشحالی اور انسان نوازی کی مسابقت ہو، حسرت بھری تمنا ہے کہ ’’میری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دکھے، کسی کو شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ سے‘‘ مگر افسوس میرا یہ وژن 70سالوں سے ادھورا خواب ہے کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباسِ مجاز میں۔
وژن اور Reality میں تفاوت یا Difference اگرچہ گزشتہ پانچ ہزار سال سے ہے لیکن اسے پاٹنا اہل نظر کی ہمیشہ تمنا رہی ہے۔ جتنے بھی وژنری انسان آئے ہیں حقائق کی تلخیوں پر قابو پانے کی کاوشیں کرتے چلے گئے ہیں کہیں کامیابیاں بھی نصیب ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر وہ اگلی نسلوں پر یہ بھاری ذمہ داری ڈال گئے کہ حیوانیت کے بالمقابل انسانیت کی جدوجہد کا سفر رکنا نہیں چاہئے۔ متحدہ ہندوستان میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے مجھے یہ گمان گزرا کہ شاید میری محرومیوں کا باعث ہمسائیگی میں بسنے والے ہندو ہیں لہٰذا میں نے کوشش کر کے مذہب کے نام پر ملک کا بٹوارہ کروا لیا لیکن مابعد معلوم ہوا کہ ’’وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی‘‘ ایک ظلم و زیادتی سے نکل کر اس سے زیادہ خوفناک پنجہ استبداد میں پھنس گیا ہوں۔ اب نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والی کیفیت دامن گیر ہے لیکن کیا کروں یہی حقیقت ہے اور اسی کا نام دنیا ہے۔ اپنی سی جدوجہد کر رہا ہوں بارہا مایوسی بھی دامن گیر ہوتی ہے لیکن پھر طفل تسلیاں دیتے ہوئے خود کو سنبھالتا ہوں کہ ’’مصیبت کا پہاڑ آخر اک دن کٹ ہی جائے گا مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا۔ ہر نئے الیکشن میں یہ حسرت بھری تمنا کرتا ہوں کہ اب کے تبدیلی آرہی ہے میری تقدیر بدلنے والی ہے مگر بعد ازاں یہی کہنا پڑتا ہے کہ ’’محبت کر کے بھی دیکھا ہے محبت میں بھی دھوکہ ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں؟.... رہزن کو رہنما سمجھ کر کچھ دیر ساتھ چلتا ہوں مگر پھر احساس ہوتا ہے کہ طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔
آج ہمارا یہ عام آدمی کس قدر غمناک، مایوس اور دکھی ہے غیر ماریں تو انسان اپنوں کو پکارتا ہے جب اپنے مار مار کر قیمہ بنا رہے ہوں تو انسان کس کو پکارے؟ کس کے نام کی دہائی دے؟ پروردگار تیری دنیا میں کس قدر دھوکا ہے اک چہرے پہ سو چہرے سجا لیتے ہیں لوگ۔ چرب زبانی میں کیا سحر ہوتا ہے کہ جس نے مذہب کا مطالعہ کیا ہے وہ سمجھ جائے گا کہ کیسی بڑی ہستی بھی اس کے زیرِ اثر آ جاتی رہی ہے۔ سات دہائیوں سے شروع ہو کر کتنی بار ہم اس کے ڈنک سے ڈسے جا چکے ہیں مگر ’’ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت ِعشق، سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دنیا دل والوں کی نہیں لٹھ والوں کی ہے۔ اہل نظر یہاں جتنی چاہے نئی بستیاں آباد کرلیں مگر ان پر کنٹرول ہمیشہ قبضہ گروپوں کا ہی رہے گا۔ بدل کر بھیس زمانے میں پھر سے آتے ہیں اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات۔
کیا لچھے دار باتیں ہیں کہ ہم ہیں سچائی اور عدل و انصاف کے علمبردار قوم کی عزت ہم سے ہے باقی سب گویا چور ڈکیٹ ہیں یا ملک دشمن ہیں۔ ’’جنہیں ہم ووٹ کی طاقت سے شکست دینا چاہتے ہیں‘‘۔ حالیہ مشق میں اس طاقت کا مظاہرہ ہم نے خوب کیا ہے۔ جس طرح اکبر کونئی تہذیب کی اثر آفرینی سے اندرونی خدشات تھے کہ بظاہر تو کوئی نقصان نہیں دکھتا، مذاہب رہتے ہیں قائم فقط ایمان جاتا ہے۔ یہاں بھی بظاہر ہر چیز 6بجے تک نارمل اور smoothہی لگ رہی تھی جو کچھ ہوا چھ بجے کے بعد ہی ہوا۔ انتخابات سے پہلے، ایک پارٹی قیادت کے خلاف جس طرح پے در پے یکطرفہ فیصلے صادر ہو رہے تھے، دھاندلی کے الزامات کو اس پس منظر میں ملاحظہ کر لیا جائے تو الیکشن اور سلیکشن کے فرق کو واضح کرنے کے لیے مزید دلائل کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ درویش نے اپنی زندگی میں اس نوع کی’’شفافیت‘‘ نہیں دیکھی کس قدر سمجھ داری سے کام لیا گیا ہے۔
بھڑکتے جذبات تو وہی تقاضا کرتے تھے جو مولانا حقیقت فرما رہے تھے لیکن اصل حقیقتیں وہ ہوتی ہیں جو شعور کے تابع ہوں ’’پختہ تر ہوئی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل‘‘۔ بجائے جوش میں آکر ہر چیز ملیامیٹ کروانے کے کیا موزوں یہی نہیں ہے کہ حکمت و دانش کی پارلیمانی راہ اپناتے ہوئے جبری تنگناؤں کو جمہوری کشاد دلائی جائے کیونکہ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ہے۔
وفاداری اگر ملک و قوم کے ساتھ ہے تو پھر بھلائی اسی میں ہے کہ جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو کڑوے گھونٹ پی کر انتخابی و پارلیمانی پراسس کو آگے بڑھنے دو، آزادیٔ اظہار پر جو قدغنیں لگ چکی ہیں وہ اسی ارتقا کی نمو سے جھڑیں گی۔ کڑوا پھل بھی پک کر اپنے وزن سے آپ گر پڑے گا بعض اوقات آپ تیل اور تیل کی دھار کو دیکھنے سے بڑھ کر زیادہ چھلانگیں نہیں مار سکتے۔ آندھی آئے تو لازم نہیں کہ آپ گردوغبار گلے میں پھینکیں۔ حوصلے کے ساتھ استقامت دکھائیں، قیادت کو اسیری سے نکالنے کے لیے انقرہ سے ریاض تک اپنے دوستوں کو بیچ میں لائیں، ہر سیاہ رات کی ایک سحر ہوتی ہے یہ سیاہی بھی لامتناہی نہیں ہے۔ مت بھولیں کہ اس سیاہی کو اپنی طرف کھینچنے میں اپنا اشتیاق بھی کم نہیں رہا ہے۔ گڈ گورننس کی باتیں کرتے ہوئے طرزِ حکمرانی میں جمہوری حوالوں سے اپنی خامیاں قابلِ ملاحظہ ہیں رہتی کسر ناقابلِ عمل بیانیے میں موجود ہر دو سوچوں کی کنفیوژن نے پیدا کر رکھی تھی۔ بیج کیسا ہی خالص ہو سنگلاخ زمین میں آبیاری کیسے ہو سکتی تھی۔ زمین کی تیاری میں مواقع ملنے پر خود آپ نے کب کیا کاوش کی۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ جمہوری سوچ کے حوالے سے ہماری ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ خاصی بنجر واقع ہوئی ہے۔
نئے پاکستان والوں پر بھی یہ واضح رہے کہ اقتدار کی راہوں پر چلنا سنبھل کے یہاں جو بھی آیا گیا ہاتھ مل کے۔ جو کرو گے وہی بھرو گے جو آج بیجو گے وہی کل کاٹو گے۔ جسے آج پھولوں کی سیج سمجھ کر خوش ہو رہے ہو اس کے کانٹوں کا بستر بننے میں بہت زیادہ ماہ و سال نہیں لگتے۔ اہل جنون کے ہاتھوں میں پتیوں کی جگہ پتھروں کے آنے میں طویل مدت درکار نہیں ہو گی۔ خیالی جنت کے متلاشی دماغوں میں پہلے ہی روشنی کم اور حرارت زیادہ ہے ’’مجھے خوف آتشِ گل سے ہے کہ کہیں چمن کو جلا نہ دے‘‘ کچھ مدت بعد یہی لوگ پوچھیں گے کہ کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں؟ کہاں ہیں لاکھوں بے گھروں کے گھر؟ کہاں ہے ہیلتھ پالیسی؟ کہاں ہے ہیومن ڈویلپمنٹ کا پروگرام؟ کہاں ہیں گڈ گورننس کے بلند بانگ دعوے؟ جو چیز جتنی بلندی سے گرتی ہے اتنی ہی زیادہ چھلنی بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ سچائی اور حقیقت بیانی سے کام لو۔ اُس چیز کا دعویٰ مت کرو جو کر نہیں سکتے ہو دوسری بات اپنے پلے باندھ لیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے مصالحت کی وہی پالیسی اپنائیں جس کی کل کو اپنے لیے توقع رکھتے ہیں۔

تازہ ترین