• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیموکریسی آن ویل چیئر
ابھی جمہوریت ہمارے ہاں وہیل چیئر پر ہے، اس کے تیمار دار بھی کچھ اتنے صحت مند نہیں، ابھی ہماری ذات کچھ اور سیاست کچھ اور ہے، اور ابھی ہمیں انجوائے بھی کوئی اور کرتا ہے، دھرتی سے وفا نہ کی آسمان سے بگاڑ بیٹھے، کوئی کافر مرتد نہیں ہوتا مگر جو اسلام قبول کر کے اس کا انکار کر دے وہ مرتد کہلاتا ہے، اس کی سزا کا بھی سب کو علم ہے، کیا ہمارے چولہے میں اتنی آگ نہیں ہوتی کہ ہنڈیا کچی پکی رہ جاتی ہے۔ کوئی بھرم بنا رہا ہے تو کوئی بھرم رکھنے کو کہتا ہے؎
تھک تھک کے ہر مقام پر دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
اور یہ کہ ’’بھان متی نے کنبہ جوڑا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ تو ہم بریک تھرو کہتے ہیں، اور الیکشن کمیشن بنایا تھا کتنے ناز سے اس کی ریسپی بھی فلاپ رہی، ہر طرف فارم 45دہائی ہے، ہمیں غلط یا صحیح خسروؔ یاد آ گئے جو پنگھٹ پر لڑکیوں سے پانی مانگ بیٹھے انہوں نے کہا پہلے ہمیں کچھ سنایئے تب پانی ملے گا، ناچار خسرو کو کہنا پڑا؎
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا جا بیٹی تو ڈھول بجا
لا پانی پلا
ہارجیت کیوں ایک دوسری کے گلے کا ہار بن جاتی ہے، ہر بار گنتی پوری کرنے کے لئے کاغذ کے جہاز اڑاتے پڑتے ہیں، امید وار پکڑ پکڑ ڈھونے پڑتے ہیں، یا پھر الیکشن کمیشن کی گنتی کمزور ہے، اس لئے شاہ زور کمزور اور کمزور شاہ زور ہے، آگے چل کر کیا ہو گا، ایک ہنگامہ رستا خیز بپا ہو گا، جو جملہ اللہ کو پسند نہیں وہی ہر زبان پر کہ وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا، جبکہ پہلے ہماری منظوری ہو گی تو پھر اس کی منظوری کے نوٹیفیکیشن کا اجراء ہو گا۔
٭٭٭٭
کیا اگست بھی ستمگر ہو گا؟
ہماری مرادوں کے بر آنے کا مہینہ آ گیا، کوئی مراد پانے کی دوڑ میں تو کوئی شکوہ بلب کہ؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اور کوئی تو یوں بھی شکوہ سنج ہے ؎
پہلے سب دکھاتے تھے اپنی شکلیں
اب کوئی صورت نظر نہیں آتی
اگر اجازت ہو تو کہہ دیں کہ یا تو سب اچھا ہو جائے گا یا کچھ بھی نہ بن پائے گا، بدلہ لیتے لیتے ہماری شکلیں بگڑ گئیں مگر نہ ہم بدلے نہ وہ بدلے، خدمت خلق کی آڑ میں پاکستان کو ہر بار نیا کرنے کی کمین گاہ میں بڑے تیر چلائے، مگر ڈھاک کے وہی دو پات، بندہ مفلس کے وہی اوقات، ہم موقع نہیں دیتے امتحان لیتے ہیں، زندگی جو امتحان لیتی ہے وہ کیا کم ہے، ہمارے اپنے اپنے عقیدے اپنے اپنے آشرم ہیں، نرم سی بات بھی کچھ اس بھیانک انداز اور ڈرائونا چہرہ بنا کر کہتے ہیں کہ پتھر کا تحمل بھی ٹوٹ جائے ہمارے ٹوٹے ہوئے شیشے سے، اکثر لوگ کہتے ہیں اللہ کی پکڑ ہے، ہم کہتے ہیں ہماری خود ساختہ پکڑ ہے، ہم نے اس سیاست کو تعیش جانا اور جس سیاست کی کوکھ سے جنم لیا اس کوکھ کا کاروبار کیا، ہم سب وسیع تر اڈیالہ میں ہیں، بس کچھ بزعم خویش اندر ہیں اکثر باہر ہیں، کہاں جو اک ہنگامہ سا برپا ہے یہ پاکستان کیلئے یا اس کے خلاف، پھر یہ اگست ہمارا ہے بھی یا نہیں؟ وہ کونسے الیکشن تھے کہ ہم نے واویلا نہ کیا، کیونکہ وہ صاف شفاف تھے دودھ ملے پانی کی طرح، ہر شخص چاہتا اپنے لئے ہے مگر ان شاء اللہ کہہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے، اپنے غلط موقف کے لئے صحیح دلیل ڈھونڈتے ہیں ایک بزرگ دن کے اجالے میں چراغ لے کر کچھ ڈھونڈ رہا تھا کسی نے پوچھا بزرگو! کیا ڈھونڈ رہے ہو اس نے کہا:انسان، پوچھا وہ آج کل شارٹ ہے دستیاب نہیں، بزرگ نے کہا وہ جو نہیں ملتا اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔
٭٭٭٭
مفت نہ ہوں بدنام
میڈیا کے کردار کو سب نے سراہا، اسے سب نے چاہا، اس کا اعتبار کیا کوئی غضب نہیں کیا مگر اب کچھ کچھ لگتا ہے کہ کسی کی کسی سے آنکھ لڑ گئی ہے، فیورٹ، نان فیورٹ کا تاثر ابھرنے لگا ہے، مناظرہ جیتنے کی دھن ہےزبان غیر سے شرح آرزو کرائی جاتی ہے، ہم با ادب ہاتھ جوڑ کر اپنے قبیلے سے کہتے ہیں کہ کوئی قبلہ بدلے کوئی کعبہ بدلے پر تم نہ بدلنا، نیوٹرل رہنا اتنا نیوٹرل کہ ناظرین چینل در چینل بٹن نہ دباتے رہیں، اب تو یوں لگتا ہے یہ چینل ان کا یہ اِن کا اور وہ کن کا؟ جلتی پر تیل کے بجائے اس پر کچھ اچھا سا پکائیں اور اگر حلوہ بنائیں تو ’’مولانا‘‘ کو ضرور کھلائیں کہ ان کے غصے کا تنور ٹھنڈا ہو، رعونت، فرعونیت بیکار کی دھونس اور دھول دھپے کی حوصلہ شکنی کریں، یہ میڈیا ہی ہے کہ اس نے قوم کو ایک تیسرا آپشن بھی دیا، اسے بیدار کیا، سیاستدانوں سے معذرت کے ساتھ کہ انہیں کھری سیاست بھی سکھائی، ہمارے الیکشن کمیشن میں تو سن صفر سے سقم چلا آ رہا ہے آج وہ کیوں اتنا نمایاں نظر آنے لگا، جب تک ہم اپنی پسند کے غلام رہیں گے کوئی چیز میرے مطابق ہو گی تو ہڑپ کڑوی ہو گی تو تھو، یہ انداز اپنی ذات کے کنویں کا مینڈک بننے کے مترادف ہے، میڈیا نے پچھلے چند برسوں میں غیر معمولی قومی خدمت انجام دی ہے، ہم عوام جو کچھ نہیں جانتے تھے سب کچھ جان گئے ہیں، میڈیا جھڑکیاں، دھمکیاں اور مار کھا کر رپورٹرز ہمارے لئے خبریں لاتے ہیں، ہاں ہم ایک بات ضرور میڈیا سے بھی کہیں گے کہ لہجے کو سنسنی سے دور رکھے، ڈری، سہمی غریب قوم کی دھڑکنوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے، ہماری بعض اینکر پرسن تو شرل آواز میں غیرت ناہید ہیں حالانکہ ہم نے تو سنا تھا بے بی کو بیس پسند ہے۔
شیروانی بدنام ہو گئی!
....Oمزید کئی ارکان شامل، پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔
حکومت چلانے کے قابل ہونے کی خبر کب ملے گی؟
....Oامریکا نے لشکر طیبہ کے کمانڈر کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا۔
امریکہ ایک ہی مرتبہ ہم سب کو عالمی دہشت گرد قرار دیدے تاکہ یہ روز روز کی جھنجھٹ ختم ہو اور امریکا کو قرار آئے پہلے حقانی گروپ کی گردان اور اب لشکر طیبہ کا تعاف چہ معنی دارد؟
....O بلاول بھٹو:مزید منت کریں گے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا الیکشن لڑوں گا۔
شاباش بلاول شاباش، نانا جان کی روح کا ¼آپ میں سرایت کر چکا، خود اپنی شخصیت کے جوہر کو نانا جان کے برگد تلے نہ رکھنا کہ برگد کے نیچے کوئی پودا درخت نہیں بنتا۔
....Oفضل الرحمان :عمران کو اکثریت نہیں ملی دھاندلی والے نتائج پر حکومت نہ بنائی جائے۔
فکر نہ کریں اگلے وزیراعظم آپ ہوں گے، سارا رولا ہی وزارت عظمیٰ کا ہے، شیروانی بھی بدنام ہو گئی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین