• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات کے بعد صوبوں اور مرکز میں پارٹی پوزیشن واضح ہوچکی ہے۔پنجاب حکومت کے حوالے سے بھی ابہام ختم ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف پنجاب میں بھی حکومت بنانے جارہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا ہوگا۔ مرکز سے بھی زیادہ مشکل کام پنجاب حکومت کو چلانا ہے۔تحریک انصاف جیسی نوزائیدہ حکومت کے لئے چوہدری برادران کی سپورٹ اشد ضروری تھی۔ اسی لئے چوہدری صاحبان کے ساتھ مل کر عمران خان نے پنجاب کو چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔تحریک انصاف کے نئے وزیراعلیٰ کے لئے پنجاب کے معاملات سمجھنا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر چوہدری پرویز الہٰی کا تجربہ ان کے کام آئے گا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مضبوط اپوزیشن سے نپٹنا بھی کٹھن مرحلہ ہوگا۔ مگر چوہدری پرویز الہٰی جیسا سیاستدان ایسے حالات میں اسمبلی کو چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے بھی کوئی موزوں امیدوار نہیں۔ اگر ان حالات میں پنجاب کو چلانا تھا تو پرویز الہٰی کو ہی وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جاتا ۔کیونکہ سابق حکومت میں پنجاب کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ جوڑ توڑ کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ایک ایسی اسمبلی جس میں صرف ایک یا دو امیدواروں کی سبقت سے حکومت بنائی جارہی ہے۔ وہاں پر تحربہ کار شخص کو وزیراعلیٰ ہونا چاہئے نہ کہ کسی پراپرٹی ٹائیکون یا پھر خاتون رہنما کو وزیراعلیٰ پنجاب بنادیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی مضبوط جڑوں کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ ٹھیک ہے پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں کی حد تک تو آپ نے بہترین فیصلہ کرلیا۔مضبوط ترین اپوزیشن سے نپٹنے کے لئے جس قد کا ٹھ کا اسپیکر وقت کی ضرورت تھا۔ وہ آپ نے پورا کیا۔لیکن صوبے کے انتظامی معاملات کو چلانے میں بھی آپکو بہت مشکل پیش آئے گی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ اپنی مرکز کی حکومت پر فوکس رکھتے اور پنجاب کے لئے تجربہ کار شخص کا انتخاب کرتے۔ لیکن مجھے ڈرہے کہ اگر پنجاب میں معقول شخص کا بطور وزیراعلیٰ انتخاب نہ کیا گیا تو چوہدری پرویز الہٰی جیسا اسپیکر بھی تحریک انصاف کی حکومت کو نہیں بچا پائے گا۔ کچھ تلخ حقائق کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔مشرف کے پاس 2002میں کسی کو بھی وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا اختیار تھا۔ وہ شوکت عزیز جیسے کسی ہومیوپیتھک شخص کو بھی وزیراعلیٰ بنا سکتا تھا۔مگر اس نے تمام تر اختیارات کے باوجود چوہدریوں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ چوہدریوں کی ایک صفت ہے کہ وہ عزت دینا جانتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سالوں کے دوران ہر سیاسی خاندان کو خوش رکھا۔ مخالف کو بھی عزت دی۔ اس لئے آج بھی پنجاب میں چوہدری صاحبان قابل قبول ہیں۔
پنجاب 90فیصد پاکستان تصور ہوتا ہے۔اگر کسی نئےشخص کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا گیا تو پھر جلد ہی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ جائے گی۔عمران خان کو پنجاب میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے گجرات کے چوہدری خاندان کے تجربے سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے۔ صرف ’’میںـ‘‘ سے مسائل خراب ہوتے ہیں۔عمران جتنے بھی مقبول اور قابل انسان کیوں نہ ہوں مگر تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔مرکز اور پنجاب کے حوالے سے عمران کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی مسائل حل ہونگے۔عمران خان کی حکومت ایک یا دو ووٹوں کی مرہون منت ہوگی۔اس لئےوہ کسی بھی اتحادی کی ناراضی مول نہیں لے سکتے۔میری ذاتی رائے میں عمران خان کو اقتدار مکمل بانٹنا چاہئےتاکہ کم سے کم مشکلات سامنے آئیں۔اگر ہرچیز اپنے پاس رکھی گئی تو مشکلات میں اضافہ ہوگا۔پنجاب کا وزیراعلیٰ جسے مرضی بنائیں اگر اس کی چوہدری برادران سے انڈرا سٹیڈنگ ٹھیک رہی تو مستقبل قریب میں تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔کیونکہ مسلم لیگ ن کے بھی ایسے کئی ارکان اسمبلی ہیں جو صرف حکومت بننے کا انتظار کررہے ہیں۔ان میں سے کئی لوگ چوہدری پرویز الٰہی سے رابطے میں ہیں۔چوہدری کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر عمل کرکے اسمبلی کا ماحول بہتر رکھنے کے لئے اقدامات کرسکتے ہیں۔
جبکہ عمران خان کو خیبر پختونخوا کے معاملات پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔پرویز خٹک اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نہیں ہیں۔صوبے میں تحریک انصاف کے لئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔فارورڈ بلاک بنانے کی باتیں بھی عروج پرہیں۔اس لئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو حکمت اور تدبر سے فیصلے لینے چاہئیں۔جذبات سے لئے گئے فیصلے شدید نقصان دہ ہونگے۔عمران خان کے پاس ایسی حکومت نہیں جو تنہاتمام فیصلے کرسکے۔بے شمار مسائل اور کمزور حکومت محتاط چلنے کا مشورہ دیتی ہے۔عمران خان کو جارحانہ رویہ ترک کرکے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔کوشش کرنی ہوگی کہ اب فوری ایسا کوئی عمل نہ کیا جائے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو۔مجھے ڈر ہے کہ عمران کے حکومت سنبھالتے ہی ڈالر ایک مرتبہ پھر بلندیوں کو چھوئے گا۔آئی ایم ایف کو امریکہ ویسے ہی تنبیہ کرچکا ہے۔چین ہمیں پیسہ تو دیتا رہے گا مگر محتاط ہوگا۔مستقبل میں بیرونی چیلنجز مزید کھل کر سامنے آئیں گے۔اس لئے عمران خان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے گھر میں زیادہ مسائل پیدا نہ کریں۔اگر بیرونی چیلنجز کے ساتھ ساتھ اندرونی انتشار میں بھی اضافہ ہوا تو پھر حکومت ناکامی کی طرف بڑھنا شروع ہوجائے گی۔مضبوط اپوزیشن اور کمزور مینڈیٹ کے ہوتے ہوئے اس پر قابو پانا بہت مشکل ہوجائے گا۔پاکستان کے عوام نے عمران خان کو مینڈیٹ دے کر آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔چند حلقوں میں دھاندلی کی شکایات اپنی جگہ پر مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ پڑا ہے۔ہر شخص نے یہ سوچ کر ووٹ دیا ہے کہ سب کو آزما چکے ہیں۔اب انہیں بھی آزمانا چاہئے۔اس لئے عمران خان کو اپنے وعدوں پر عمل کرنا ہوگا۔وگرنہ عوام عمر ان کو بھی اگلے الیکشن میں مسترد کردیں گے۔اس لیے تو کہتے ہیں کہ اقتدار کی عظمت سے احتساب کی ہیبت جڑی ہوتی ہے۔

تازہ ترین