• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختیار اور خون کے رشتوں میں زندگی کے دھاگے الجھن اور تشکیک کا شکار رہتے ہیں۔ محبت کا جگنو گھڑی گھڑی چمکتا، امید کا احساس دلاتا آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا رہتا ہے مگر وسوسوں کا اندھیرا ڈپریشن کے شکنجے میں ایسے کس لیتا ہے کہ سانس لینا دوبھر ہو جائے۔ کبھی ایک طرف جھکائو اور کبھی دوسری طرف، یہی زندگی کا جبر ہے۔ نہ خون کے رشتوں کو چھوڑا جاسکتا ہے نہ اختیار کے ناطوں سے لاتعلقی برداشت ہوتی ہے۔ ایک نظر کے قریب ہے تو دوسرا دل کے۔ زندگی ہر لمحہ کسی نہ کسی احساس کی گرفت میں رہتی ہے۔ جہاں محبت اور نفرت کے شدید جذبات وحشت اور جنون کی کیفیت میں مبتلا کرتے ہیں وہیں دوستی، اخلاص اور اپنائیت کی مہک رکھنے والے پھولوں کی بہار شادمانی اور سرور عطا کرتی ہے۔ محبت اور نفرت انتہا پسند جذبے ہیں جبکہ اخلاص رواداری کا عکاس ہے اسی لئے اخلاص کے پھولوں پر کبھی خزاں کا سایہ اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ دوستی کا رشتہ کائنات کا سب سے منفرد رشتہ ہے جس کا تعلق جبر سے نہیں بلکہ احساس اور اختیار سے ہے اور اختیار تو انسان کو ازل سے بھلا لگتا ہے۔ زندگی کے وسیع میدان میں مختلف طبقۂ فکر کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے اور دوستی کے رشتے میں جڑتے رہتے ہیں۔ فکری، روحانی اور جذباتی کشش لوگوں کو قریب کرتی ہے۔
بڑے دنوں سے اک درویش صفت انسان، جس کی فکر اور عمل سے بے حد متاثر ہوں اور جس کے بارے میں میرے کچھ تحفظات بھی ہیں، کے بارے میں کچھ توصیفی اور تنقیدی کلمات میرے دل و دماغ سے اظہار کی اجازت طلب کرتے پھر رہے تھے مگر ہر دفعہ اس سوچ نے قلم کو تحریر سے باز رکھا کہ درویش کی تعریف بھلے سو فیصد درست اور منطقی ہو پھر بھی خوشامد کا ذرہ سا گمان اسے بدگمان کر دیتا ہے اور اس کے برعکس جانے کو اس لئے دل نہ چاہا کہ درویش کتنا ہی بڑے دل کا مالک کیوں نہ ہو اگر اسے چند حروف بھی ناگوار گزر گئے تو اس کی خفگی مرید کے لئے بہت بڑی سزا بن سکتی ہے۔ بہرحال اب چونکہ درویش خاموش ہے تو کچھ کہنا بہت ضروری ہے۔
پہلی ملاقات ہی بہت عجیب تھی۔ شخصیت اتنی حیران کن کہ فکر اور احساس گتھم گتھا ہو گئے۔ دل کہتا تھا یہ ایک ولی اور درویش ہے لیکن اس کا ظاہر، جس نے زمانے کا پیرہن اوڑھ رکھا تھا، کسی اور طرف اشارہ کرتا تھا۔ یہ خبر ہونے میں بڑی دیر لگی کہ وہ کیا ہے اور کیا پوز کر رہا ہے؟ بڑے دنوں تک اس کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم نہ کی جا سکی۔ نفسیات، فلسفے، سیاسیات اور ادب کی تعلیم بھی اس حوالے سے میری کوئی مدد کرنے سے قاصر تھی۔ پھر میں خاموش ہو گئی۔ حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتی رہی۔ کئی سال گزر گئے۔ انسان کی شخصیت کتنی ہی تہوں میں چھپی ہو، اچھائیاں اور برائیاں کسی نہ کسی بات یا عمل سے عیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ سو وجدان نے اس شخصیت کی اسٹڈی مکمل کی تو پتہ چلا کہ وہ بظاہر عام کا تاثر دینے والا تصوف میں ایک خاص عہدے پر متمکن ہے۔ ظاہر کے ضابطوں سے زیادہ باطن کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اس لئے اس کا تن من بے خودی اور روحانی دانش سے لبریز ہے۔ وہ جیون کی رہگزر پر ہر طرح کے پروٹوکول سے آزاد اپنی مستی میں رواں دواں ہے۔ ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھنے، جہاں بھوک لگی وہیں کسی کھوکھے سے کھانا کھانے، جس منظر نے دل لبھایا اسی سے مکالمہ کرنے زمین پر بیٹھ جانے والے درویش نے رفتہ رفتہ میرے وجود کو اپنے حصار میں جکڑ لیا۔ اس کی محفل میں کسی ملاقاتی کے لئے انتظار اور پرچی کا کوئی رواج نہ دروازے پر کوئی پہرے دار۔
اس کا دماغ روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز چلتا تھا۔ بیک وقت ایک محفل میں کئی لوگوں سے مختلف موضوعات اور معاملات پر بات ہو رہی ہوتی تھی۔ وہ ہر لمحہ متحرک مصروف رہنا مگر بے نیازی کی کیفیت اوڑھے رکھنا اسی کی شخصیت کا کمال تھا۔ موبائل سے محبت کا یہ عالم اگر اس کے اوقات کا تعین کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کا بیشتر وقت موبائل اسکرین کو دیکھتے گزرتا اور ہاتھ پیغامات ٹائپ کرنے میں۔ حیرت کی بات یہ کہ موبائل پر بھی ان کے مخاطب دکھی انسان ہوتے تھے اور ان کا رابطہ بیک وقت سینکڑوں لوگوں سے ہوتا تھا۔ سب کی سننا اور سب کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ان کی عادت بن چکا تھا۔ جس نے مسئلہ بتایا ایک لمحے میں پڑھا اور دوسرے میں اسے حل کرنے میں لگ گئے۔ موبائل پر ہی دوستوں کی فہرست موجود تھی، ذمہ داریاں بانٹی ہوئی تھیں صرف کلک کرنے کی دیر تھی۔ دوست بھی اس کی فطرت سے آگاہ تھے اس لئے کچھ خوشی، کچھ دل رکھنے اور کچھ نیکی کمانے کے لئے ان کا کہا مانتے تھے۔
منافقت اور ہیرا پھیری سے مبرا چہرہ ایسا آئینہ کہ جس پر پسندیدگی اور ناراضگی کے تاثرات صاف نظر آجائیں۔ خوش ہونے اور روٹھنے کی واحد وجہ رویوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ اختصار پسندی کا یہ عالم کہ سائل کو بولنے کا موقع کم ہی دیتے۔ ادھر اس نے بات شروع کی ادھر خلاصہ بیان ہو گیا۔ سب سے اتنی فرینکنیس کہ ہر کوئی اسے اپنا دوست سمجھے۔ اس کے اردگرد بسنے والے اس کی شخصیت کی ٹھنڈی چھائوں سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر اس کے روئیے سے اپنی ذات کے اندھیروں کو روشن کرنے کا جتن کرتے۔
جب ہم نے جان لیا کہ وہ ایک ایسے سچے، کھرے مخلص اور مہربان دوست ہیں اور جب ان کی گفتگو سے پھوٹنے والی روحانی کرنیں وجود کو لطافت کی طرف لے جانے لگیں تو وہ خاموش ہو گئے۔ ان کی آخری تقریر میں لفظ کم اور آہیں زیادہ تھیں۔ لہجہ چھلک چھلک جاتا تھا۔ انہیں پہلی بار اس حالت میں دیکھا تو خود اپنے اندر بہت کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ ان کا دکھ ذاتی نہیں اجتماعی ہے۔ درویش دھرتی سے جڑت رکھتا ہے۔ اس کی آواز سنتا ہے۔ دھرتی نے اس کے کان میں نہ جانے کیا کہا ہے کہ وہ رنجیدہ ہو گئے ہیں۔ شاید دھرتی کے خلاف رچائی جانے والی سازشوں نے ان کی لبِ گویائی گم کر دی ہے۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ سب اِک مِک ہو جائیں۔ انتخابات اور زندگی کے دیگر میدانوں میں ہار جیت دنیاوی معاملہ نہیں، قوموں کی سربراہی کا فیصلہ کسی اور جہان میں کیا جاتا ہے اس لئے وہ جسے چن لے اسے ایک موقع دینا فرض ہو جاتا ہے۔ درویش کی خاموشی توڑنا بہت ضروری ہے۔ جن معاشروں میں درویش لوگوں سے لاتعلق اور لاپرواہ ہو جائیں وہ اخلاقی حوالے سے گراوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آئیے درویش کی خاموشی توڑنے کے لئے آپس میں لڑنے، منفی کاموں میں الجھنے اور دنیا کے سامنے اپنا تماشہ بنانے کی بجائے وحدت میں ڈھل جائیں، اپنے اداروں کی توقیر کرتے ہوئے سبز ہلالی پرچم کا مورال بلند کریں۔ وقت کا تقاضا ایک قومی وحدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو وقت کا اشارہ بھانپ لیتی ہیں۔

تازہ ترین