• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر عمران خان کی پارٹی خیبرپختون خواکی طرح آزادامیدواروں اوراتحادیوں کےبغیرسادہ اکثریت حاصل کرلیتی توعمران خان کےنئےپاکستان کاآغازایک ’خواب‘ کی طرح ہوتا۔ ان کےپاس حکومت بنانے کیلئےکچھ سمجھوتے کرنے کےسواکوئی چارہ نہیں ہے، اوریہ ابھی تک تاخیر کا شکار ہےکیونکہ اسمبلی کاپہلا اجلاس تاحال طلب نہیں کیا جا سکا۔ ان کیلئےان کاپہلےسودن کامنصوبہ نافذکرناایک چیلنج ہوگا جو وزیراعظم کاحلف اٹھاتےہی شروع ہو جائے گا۔ لیکن متوقع وزیراعظم نے پہلے ہی فیصلہ کرلیاہے کہ ’نئےپاکستان‘کی بنیادقلعہ نما وزیراعظم ہائوس سے نہیں رکھی جائےگی۔ اس کی بجائے وہ 10-ڈاوئننگ سٹریٹ کی طرح منسٹرانکلیوسے حکومت چلائیں گےاورتمام اعلیٰ شخصیات کووہاں ہی ملیں گے۔ ان کے نامزدکردہ وزرائےاعلیٰ اور گورنرزکوبھی لیڈرکی پیروی کرنی چاہیےاورسرکاری سی ایم اور گورنر ہاسز استعمال نہیں کرنےچاہیئے۔ 

نئے پاکستان کا آغاز

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پی پی پی کےوزیراعلیٰ سندھ بھی اس مثال کی پیروی کریں گےیانہیں۔ عمران نے ان تمام بڑے ایوانوں کو یونی ورسٹیوں اور اداروں میں تبدیل کرنےکااعلان کیاہے، گورنرہائوس سندھ کو آزادی کے بعد سےایک خاص اہمیت حاصل ہے، یہ بانی پاکستان قائداعظم کی جانب سےبطورگورنرجنرل ہائوس استعما ہوتا تھا اور اس کی ایک علامتی اور تاریخی اہمیت ہے۔ عمران کوجلدی بازی میں فیصلے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہےلیکن ہرکوئی اس بات سے اتفاق کرتاہے کہ اسے وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا گورنر کی سرکاری رہائش گاہ کےطورپراستعمال نہیں کرناچاہیئے۔ نئے پاکستان کے لوگ نئےپاکستان میں ’سادگی‘دیکھیں گے۔ عمران ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجواور میراج خالدجیسےاپنےپیش روئوں کی جانب سےقائم کردہ اچھی مثالوں سےسبق سیکھ سکتےہیں۔ بھٹو’عوامی انداز‘کاخالق تھااورتمام طبقوں میں عام آدمی کےلباس ’شلوارقمیض‘ کومقبول کیااورسرکاری تقاریب میں بھی اسےاستعمال کیا۔ انھوں نےاپنےوزراءکوگاڑیوں پرقومی جھنڈا لگانے سے بھی منع کردیاتھا۔ بعض اوقات وہ ٹرین پر سفرکیاکرتےتھے۔

نئے پاکستان کا آغاز

 بھٹو نے’ایوارڈ‘کی پالیسی بھی روک دی تھی جسے آرٹیکل 256میں آئین کاحصہ بنادیاگیا۔ انھوں نے وزیراعظم کاحلف بھی ایک عوامی جگہ پرلوگوں کےسامنے اٹھایاتھا۔اسی طرح مرحوم محمد خان جونیجو نے سادگی کے حوالے سےیہ تاریخی فیصلہ کیاتھا کہ تمام سرکاری اور فوجی اہلکار چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں گےاور اسے سرکاری پالیسی کاحصہ بنادیاگیا۔ عمران اس عمل کو دوبارہ شروع کرسکتے ہیں اور انھیں ’پروٹوکول ایس اوپیز‘ سےیرغمال نہیں بنناچاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکیورٹی اہم ہےلیکن انھیں سیکیورٹی اور پروٹوکول میں فرق دیکھنا چاہیئے۔ ’نئےپاکستان‘ میں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کےکوئی صوابدیدی اختیارات یا فنڈز نہیں ہونےچاہیئے ، اور عمران خان قوم سے اپنے سرکاری خطاب میں اس کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ ملک میں وی وی آئی پی اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کااعلان بھی کرسکتے ہیں اورسوائے بوڑھےلوگوں کےایم این ایز،ایم پی ایزیاسینیٹرزکیلئےکوئی الگ سے کوٹہ نہیں ہوناچاہیئے۔ وہ ہرطرح کے’خفیہ فنڈز‘ کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔

نئے پاکستان کا آغاز

 پی ٹی آئی 25جولائی کےاتنخابات میں116سیٹوں کےساتھ واحد بڑی جماعت بن کرابھری ہےلیکن ابھی بھی یہ 171کےنمبر سے دور ہے، جو سادہ اکثریت کیلئے ضروری ہے، اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے سمجھوتے کرنےکےتاکہ جادوئی ہندسےتک پہنچاجاسکےاور ہائوس کالیڈر اور وزیراعظم منتخب کیاجاسکے۔ پنجاب میں صورتحال اور بھی خراب ہے کیونکہ الیکشن کے دن پی ایم ایل(ن) بڑی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن اب آزاد اور اتحادیوں یعنی پی ایم ایل(ق) کی حمایت کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت بنانےکی پوزیشن میں ہے۔ پنجاب اور کےپی کےوزرائےاعلیٰ کےاہم اور طاقت ورعہدوں کیلئے تمام نظریں عمران خان کےفیصلےپرہیں بلوچستان میں وزیراعلیٰ کیلئےپی ٹی آئی اوربلوچستان عوامی پارٹی پہلےہی جام کمال کونامزدکرچکی ہیں۔ 

نئے پاکستان کا آغاز

25جولائی کےبعدکی صورتحال نئےوزیراعظم کودرپیش چیلنجز کوظاہرکرتی ہےمثال کےطورپرکس طرح سیاسی استحکام لایاجائےاور اپوزیشن کواہم معاملات پرکیسےجمع کیاجائے۔ اپوزیشن اور اپنے اتحادیوں یعنی پی ایم ایل(ق) اورایم کیوایم کےدھاندلی سےمتعلق تحفظات دورکرنےکیلئے عمران جوڈیشل کمیشن بنانےکااعلان کرسکتےہیں۔ لہذا ہمیں ’نئےپاکستان‘ کی تشکیل کے بعد 10سے15دن تک انتظارکرناہوگا۔ عمران اور پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کیلئے تیار کرناہوگا جس میں شور شرابا ہوگا اور ہنگامہ آرانی بھی ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین