• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آر ٹی ایس کی خرابی: الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات؟

جنگ نیوز

وطن عزیز کی سیاست میں حالیہ انتخابات کے انعقاد کے بعد ایک نئی سیاسی صورتحال اور تبدیلی کے آثار واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں ۔انتخابی مہم کے دوران یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سیکورٹی کے خدشات اور خطرات شاید انتخابات کے مرحلہ کو کسی بڑے امتحان سے دوچار نہ کر دیں تاہم یہ بات بڑی حوصلہ افزاء ہے کہ الیکشن کا عمل بروقت مکمل ہو گیا لیکن مایوس کن پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ’’ناقص کارکردگی‘‘ نے نہ صرف کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں بلکہ کئی معاملات کو اس قدر شکوک وشبہات سے دوچار کر دیا ہے کہ کئی ادارے بھی الزامات کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔

واقفانِ حال کاکہنا ہے کہ پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے دل فگار سانحات نے تو پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ دہشت گردی کی اس لہر کی وجہ سے پورا انتخابی عمل ہی ناممکن ہوتا نظر آ رہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی خوف اور تذبذب کے عالم میں عوام سے مخاطب ہونے کے مراحل طے کرتے رہے ہیں انتخابات کے نتائج سے جو صورتحال برآمد ہوئی ہے اس سے سیاسی جماعتوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اس کی روشنی میں بخوبی کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان ’’انتخابی اصلاحات‘‘ پر بالکل عمل نہیں کیا جو نگران وزیراعظم جسٹس (ر)ناصرالملک نے گزشتہ انتخابات کے بعد بننے والے کمیشن کی طرف سے سفارشات مرتب کی تھیں۔ ان تجاویز میں گزشتہ انتخابات کی ان تمام شکایات کے ازالہ کا فارمولہ طے کر دیا گیا تھا ۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ الیکشن کمیشن نے ’’جدید ٹیکنالوجی ‘‘ کے استعمال کا بڑا شور برپا کیا لیکن ان کا یہ سسٹم ایسے بیٹھ گیا جیسے اس کو چلانے کی نہ ٹریننگ کی گئی تھی اور نہ ہی اس کو عملدرآمد سے قبل آزمایا گیا تھا۔اس صورتحال نے ہی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے الزامات کے لامتناعی سلسلے نے زور پکڑا ہے اور پھر بیشتر حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد ہزاروں میں سامنے آئی ہے جبکہ جیتنے کا ’’مارجن‘‘ سینکڑوں میں دکھائی دیا ہے جس کی وجہ سے ووٹوں کی گنتی کے دوبارہ معاملات کی تعداد میں اضافہ محسوس کیا گیا ہے ۔وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ نتائج کی روشنی میں پاکستان تحریک انصاف نے برتری حاصل کر لی ہے اور وہ وفاق میں حکومت سازی کے مرحلے کو بآسانی طے کر لے گی۔

مسلم لیگ (ن) دوسری بڑی پارٹی کے طور پر اور پیپلز پارٹی تیسری پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گوانتخابات کے مختلف سروے یہ بتا رہے تھے کہ کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی لیکن عمران خان کی پارٹی کی جیت نے ثابت کر دیا ہے کہ حالات اس کے موافق تھے اور اسے کسی قسم کی ان ’’سیاسی آلائیشوں‘‘ کا سامنا نہیں تھا جو مسلم لیگ (ن) یا دیگر کئی پارٹیوں کو تھا۔یارلوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ماضی کے تلخ تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے کئی سیاسی اور اخلاقی سمجھوتےکئےجن کو وہ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے واشگاف طور پر ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دیتے رہے تھے۔سینٹ کے انتخابات کے موقع پر بھی ان کا رویہ اپنے ماضی کے برعکس تھا اور انہوں نے وہ کام کر دکھایا تھا جس کا ان کو ’’اشارہ‘‘ دیا گیاتھا۔اس کے بعد کی صورتحال نے تو ان کو مزید فائدہ پہنچایا جب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نہ صرف نااہل ہو گئے بلکہ احتساب عدالت سے ان کو سزا بھی ہو گئی۔ 

ان کے ’’بیانیے‘‘سے وقتی طور پر ان کی پارٹی کو جوش ملا لیکن بعدازاں ان سے جنوبی صوبہ محاذ کے نام پر منتخب نمائندوں کو توڑا گیا اور تحریک انصاف کے ساتھ ملا دیا گیا۔اس کے علاوہ انتخابات کے بالکل قریب جنوبی پنجاب کے علاوہ کئی اضلاع کے ’’پارٹی ٹکٹ ہولڈروں‘‘ سے ٹکٹ واپس کروائےگئے جس کے بارے میں یورپی یونین کے مبصرین نے انتخابات کے بعد اپنے ردعمل میں اظہار کیا ہے کہ انتخابات سے قبل ایسی کارروائیاں کی گئیںجو یکساں مواقع فراہم کرنے والی نہیں تھیں۔بہرحال وفاقی دارالحکومت میں انتخابات کے نتائج کے بعد عمران خان نے جو ’’وکٹری سپیچ‘‘ کی ہے وہ ایسے عوامی اور فلاحی اقدامات کا اعلان ہے جو عام شہری کے لئے بھی ’’آئیڈیل صورتحال‘‘ ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کے بارے میں جو اعلانات کئے گئے ہیں اور اداروں کو مثالی بنانے کے علاوہ سادگی کے شعار کو اختیار کرنے والی تمام باتوں کا تعلق تو ’’عملدرآمد‘‘سے ہے ۔

ان مثالی اقدامات کے اعلان کے بارے میں ماضی کے حکمرانوں نے بھی ایسا کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ ایسا کرنا ان کے لئے ممکن بھی ہوگا یا صرف زبانی جمع خرچ والی صورتحال ہو گی اور خارجہ پالیسی کے معاملہ میں امریکہ، افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں جس آزادانہ صورتحال کا رویہ اختیار کیا گیا ہے مستقبل میں وہ ان تمام دشواریوں کو عبور کر لیں گے جو مختلف وجوہات کی بناء پر ان کے راستے میں حائل ہوں گی؟ صوبائی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو جو صوبے میں ’’مینڈیٹ‘‘ ملا ہے اس میں میاں نواز شریف کی واپسی اور جیل جانے کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے اس خدمت خلق کے جذبے اور فلاحی منصوبوں کی وجہ سے ہے جو انہوں نے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام و خواص کے لئے انقلابی اقدامات کی صورت میں کئے ہیں۔

حکومت سازی کے معاملہ میں تو تحریک انصاف نے مطلوبہ تعداد پوری کرلی ہے ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے لئے جہاں پر ملک کے معاشی بحران کا امتحان ہے وہاں مرکز اور صوبے میں حکومت بنانے اور بعدازاں چلانے کے سلسلہ میں بھی قدم قدم پر آزمائش سے دوچار ہونا پڑے گا۔ تحریک انصاف کی طرف سے وزارت اعلیٰ اسپیکر شپ سینئر وزیر اور صوبائی وزرا کیلئے بھی دوڑ جاری رہی ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ پارٹی وابستگیوں کو چھوڑ کر کامیابی حاصل کرنے کےلئے وفاداریاں بدلنے والے بیشتر رہنما شکست سے دوچار ہو گئے ہیں۔ندیم افضل چن، نذر گوندل، غلام مصطفیٰ کھر، فردوس عاشق اعوان، شوکت بسرا، رانا آفتاب، رانا نذیر احمد خان، رضا حیات ہراج، منظور وٹو اور کئی دیگر کو عوام نے پارٹیاں بدلنے کی سزا دی ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین