• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن2018 سے قبل کی انتخابی مہم کے دوران سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی پر سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں کے الزامات، سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی منی لانڈرنگ کے الزامات پر احتساب عدالت میں پیشیاں، گزشتہ عرصے میں پیپلزپارٹی کے اہم عہدیدار ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 462 ارب روپے کی کرپشن کے ریفرنس کے تحت گرفتاری اور رہائی، سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن اور ان کے ساتھیوں کی محکمہ اطلاعات سندھ میں 6 ارب روپے کرپشن کی کہانیاں، سندھ کے مختلف منصوبوں میں خردبرد، پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کو موہنجو دڑو سے بھی قدیم دور میں لے جانے کی باتیں، سندھ کے محکمہ تعلیم میں سابق وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے ذریعے محکمہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کی جعلی بھرتیوں کے معاملات، پاکستان پیپلزپارٹی کے دو مرتبہ کے 10 سالہ دور حکومت میں سندھ کے مختلف محکموں کی بدحالی اور نہ جانے کیا کیا الزامات کے باعث مبصرین اور ہوائی دعوے کرنے والی مافیا نے تو ایک طرح سے پاکستان پیپلزپارٹی کو ملک بھر سے ’فارغ‘ کردیا تھا۔

جی ڈی اے کی بھرپور انتخابی مہم میں جوش و خروش دیکھ کر پیپلزپارٹی کی کامیابی ظاہری طور پر مشکلات میں گھری دکھائی دے رہی تھی لیکن تمام تر مخالف پیش گوئیوں اور دعوؤں کے برعکس پاکستان پیپلزپارٹی نے ناصرف سندھ کا انتخابی معرکہ نمایاں طریقے سے مار لیا بلکہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے نشستیں اور اچھے ووٹ حاصل کرکے مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا۔

یہی نہیں حالیہ انتخابات میں تجزیوں اور مخالفین کے دعوؤں کے برخلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ انتخابات کی نسبت 25 لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا اور پاکستان پیپلز پارٹی 68 لاکھ 94 ہزار 296 ووٹ حاصل کرکے ملک گیر سطح پر تیسرے اور 38 لاکھ 39ہزار 389ووٹ لے کر سندھ میں پہلے نمبر پر رہی۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سندھ کے شہروں سانگھڑ، دادو، کشمور، کندھ کوٹ، جامشورو، نوابشاہ، ٹھٹھہ اور دیگر اضلاع میں پاکستان پیپلزپارٹی نے کلین سوئپ کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور پی پی کے سابق اہم عہدیدار ذوالفقار مرزا سمیت مختلف شخصیات کو شکست سے دوچار کیا ہے۔

حالیہ پروپیگنڈے کے باوجود پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے نواب شاہ کا انتخابی معرکہ سرکرلیا۔ پیپلز پارٹی کا قلعہ چوتھی مرتبہ الیکشن میں ناقابل تسخیر رہا جہاں سے آصف علی زرداری نے 101192 ووٹ جبکہ ان کی بڑی ہمشیرہ سابق ایم این اے ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 37 سے 55524 ووٹ لے کر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔

یوں سندھ اسمبلی کی 74 نشستیں حاصل کرکے پاکستان پیپلزپارٹی صوبے میں تیسری باری لینے اور کسی جوڑ توڑ یا ’گھوڑاباڑی‘ کے بغیر حکومت سازی کی ہیٹ ٹرک پوری کرنے کیلئے تیار کھڑی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ماضی کے مقابلے میں بہترین اور نمایاں کارکردگی کے ساتھ کیوں جیتی؟؟

حالیہ انتخابات 2018 میں پیپلزپارٹی سندھ میں زبردست کارکردگی اور ماضی کے مقابلے میں نشستیں بڑھنے پر مخالفین عجیب و غریب کیفیت اور بعض حلقے سوالیہ صورتحال کا شکار ہیں۔

پیپلزپارٹی کے بارے میں عوامی تاثر یا بظاہر صورتحال تو ابتدائیے میں ظاہر کرچکا ہوں لیکن پیپلزپارٹی کا شعبہ اطلاعات یا حکومت کے دور میں سندھ کا سرکاری محکمہ اطلاعات بھی پنجاب یا خیبرپختونخواہ کی طرح سندھ میں ترقیاتی کاموں کی اصل صورتحال ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں ناکام رہا۔ یہی وجہ تھی کہ میرے ذہن میں بھی یہ سوال بار بار آرہا تھا کہ اندرون سندھ میں انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کے مخالفین نے بھی زور و شور کے ساتھ دھاندلی کی کوششوں کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی اور چند ایک کے سوا سندھ کے کسی خاص علاقے سے بھی بوگس بوٹنگ کی کوئی اطلاعات نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی انتخابات میں دھاندلی یا جعلسازی کرنے کی کوئی آواز نہیں آئی تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی سندھ سے نمایاں اکثریت سے کیسے جیتی؟؟

یہ سوال لے کر جب تحقیق کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ سندھ میں گزشتہ عرصے میں ہونے والی ترقی خفیہ رہی۔ یعنی ذرائع ابلاغ یا سوشل میڈیا کے ذریعے یہ ترقی عوام تک نہیں پہنچائی گی۔ پارٹی کی طرف سے اس کا کوئی کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ ترقی جن لوگوں کے لئے کی گئی تھی انہوں نے اس سے استفادہ کیا اور اس ترقی کے منتظمین کو سرخرو کر دیا۔

کھوج لگانے کے دوران سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے سڑکوں کا نیٹ ورک پھیلانے، امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے اور ہر علاقے کے حساب سے ان کے مسائل حل کرنے پر بھر پور توجہ دی گئی۔ اخبارات میں انتخابات سے جڑی بہت سی خبریں شائع ہورہی ہیں ان میں تھر کی خواتین سے متعلق ایک خبر نے چونکنے پر مجبور کیا۔

خبر یہ تھی کہ تھرپارکر میں خواتین نے جہالت کے اندھیروں کو مات دے کر ٹرن آئوٹ کی نئی مثال قائم کردی، تھری آبادی میں ٹرن آئوٹ 73 فیصد رہا اور سندھ کے ضلع تھر میں خواتین ووٹرز نے عام انتخابات 2018 میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے قومی سطح پر سب سے زیادہ ٹرن آئوٹ کا ریکارڈ قائم کردیا۔

سندھ کے پسماندہ ضلع تھر کے 2 حلقوں این اے-221 اور این اے-222 میں ووٹرز کا ٹرن آوٹ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ تھا۔ 

این اے-221 تھرپارکر ون میں ووٹنگ کی مجموعی شرح 68 اعشاریہ 6 فیصد تھی اور مجموعی طور پر 72 اعشاریہ 83 فیصد خواتین اور 65 اعشاریہ 39 فیصد مرد ووٹرز کا ٹرن آوٹ تھا۔

اس کے پس منظر میں جائیں تو ماضی کے کئی سالوں کے دوران حکومت کی جانب سے کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ تھرکول منصوبے میں مقامی آبادی کو روزگار کے بہترین اور نمایاں مواقع پیپلزپارٹی کی پالیسی کا اہم جزو تھے۔ وہاں کے مردوں کو ہی نہیں خواتین کو بھی ترقی کے سفر کا ہمراہی بناتے ہوئے ہیوی ڈرائیورز جیسی نوکریاں دیں۔ تھر کے مخصوص لباس میں لپٹی اور غیر مرد کو دیکھ کر چہرے پر گھونگھٹ سے پردہ کرنے والی تھری عورت اب ترقی میں مردوں کے شانہ بشانہ شامل ہوچکی ہے تو حق رائے دہی کیلئے پولنگ اسٹیشن تک کیوں نہ پہنچتی۔

سندھ کا پسماندہ علاقہ تھرپارکر لگ بھگ 15 ہزار کلومیٹر رقبہ پر محیط ہے، جہاں زندگی کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ پانی رہا ہے۔ ماضی میں تھری باشندے اس بنیادی مسئلہ کے حل کیلئے باران رحمت کے مرہون منت تھے۔ تھر میں کسی بھی موسم کی بارشیں تھریوں کی زندگی میں گویا کہ عید کا دن ہوتی ہیں کیونکہ بارش کے پانی کو محدود اور قدرتی طریقے سے محفوظ کرکے اگلے دنوں کی زندگی کی تیاری کرلی جاتی تھی۔

بارشیں نہ ہونے کی صورت میں ہرسال کی ہجرت تھری باشندوں کی زندگی کا لازمی جزو رہی ہے، وہ اپنے مال مویشی کے ساتھ ہر سال علاقے سے ہجرت کرکے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتے جاتے تھے۔ جوں جوں پانی کی کمیابی ہوتی جاتی وہ تھر سے اتنا ہی دور ہوتے چلے جاتے تھے۔ تھری باشندوں کی زندگی کا بیشتر حصہ پانی کی تلاش میں گزر جاتا تھا۔

اسی بنیادی ضرورت کے لیے وہ ہر سال میلوں کا سفر طے کرتے تھے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تھر کے ہر گاؤں گوٹھ تک پانی پہنچا کر تھر کے باشندوں کی زندگی بدل دی۔ سال 2005 سے تھر میں پانی کے منصوبوں کا سلسلہ شروع ہوا جسے تھرپارکر مٹھی، چھاچھرو، ڈپلو، اسلام کوٹ، ننگر، ڈالی، عمرکوٹ تک پھیلا دیا گیا۔

شمسی توانائی اور ریورس اوسموسس ٹیکنولوجی کے ذریعے تھر کے باشندوں کی زندگی بدل دی گئی۔ تھر پار کر میں انسان ہی نہیں بلکہ مویشی بھی پیپلزپارٹی کی صاف پانی کی فراہمی کی پالیسی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ سندھ کے پسماندہ علاقہ تھرپارکر ہی نہیں پورے سندھ کا اہم اور بڑا مسئلہ ذرائع آمدورفت تھا۔ مجھے یاد ہے کہ صحرا ۓ تھر کی بل کھاتی ریگستانی کچی سڑکوں پر “کیکڑا” نامی سواری عالمگیر شہرت رکھتی ہے۔ جن علاقوں تک یہ ترقی نہیں پہنچی وہاں اب بھی یہ صورتحال ہے مگر تھر کے بہتر علاقوں کے علاوہ سندھ بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ذرائع آمدورفت کا یہ خاموش انقلاب سڑکوں کے نیٹ ورک کی صورت میں برپا کیا اور تھر سمیت پورے سندھ میں جدید اور بہترین سڑکیں بنائیں۔

میرا یقین ہے کہ تھرپارکر سے پاکستان پیپلزپارٹی کو بھاری اکثریت سے جتوانے کی بڑی وجہ ذرائع آمدورفت کی فراہمی ہی ہے۔ سندھ کے نواحی خاص طور پر کچے علاقے ڈاکو کی آماجگاہوں کے حوالے سے بد نام رہے ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی بیشتر وارداتیں علاقوں میں ہوتی تھی۔ سڑکوں پر سفر کرنے کے دوران ماضی کے سندھ میں رات کا سفر انتہائی خوفناک تصور کیا جاتا تھا۔

مرکزی سڑکوں یا ہائی ویز پر پولیس کے کانوائے کے ساتھ کئی کئی کلومیٹر کا سفر میرے ذاتی مشاہدے میں بھی شامل رہا ہے۔ مگر موجودہ صورتحال میں سندھ میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ڈاکو اور ان کی فلمی طرز کی وارداتیں ماضی کی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ سندھ میں کراچی کے بعد سب سے زیادہ ترقی سابق صدر آصف زرداری کے آبائی شہر بینظیر آباد نواب شاہ میں ہوئی۔ جہاں سندھ کی نامور خاتون شخصیت بختاور بی بی کے نام سے منسوب گرلز کیڈٹ کالج سندھ ہی نہیں پورے ملک کے عوام کیلئے بڑا تحفہ ہے، 1896 ملین روپے کے منصوبے بختاور گرلز کیڈٹ کالج کی تعمیر سال 2010 میں شروع اور گذشتہ سال مکمل ہوئی۔

شہر کے باہر کھڈھر روڈ پر 100 ایکڑ اراضی پر قائم اس منصوبے کے ایڈمسٹریشن بلاک، اکیڈمک بلاک، ملٹری ٹریننگ بلاک، آڈیٹوریم، اسٹوڈنٹس ہاسٹل کے چار بلاکس، میس اور ڈائننگ ہال، فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کیٹگری کے 19 بنگلوز، مختلف درجے کے ملازمین کے 42 کوارٹرز، بیچلرز فلیٹس، اسٹاف کلب، خوبصورت مسجد، ڈسپینسری، کیڈٹ کینٹین، شاپس، مارکیٹ، دھوبی گھاٹ، جمنازیم ہال، سوئمنگ پول، بیڈمنٹن ہال، پویلین اور ایتھلیٹک ایریا، ٹینس کورٹ، اسکواش کورٹ اور سہولتوں میں پریڈ گراوٴنڈ، فائر شوٹنگ رینج، کرکٹ گراوٴنڈ، ہاکی گراوٴنڈ، فٹ بال گراوٴنڈ، جاگنگ ٹریک، باوٴنڈری والز، استقبالیہ کے ساتھ دیدہ زیب اور پروقار مرکزی گیٹ، سڑکیں، پارکنگ، سیوریج، واٹر سپلائی اور اسٹینڈ بائی جنریٹر وغیرہ شامل ہیں۔

گرلز کیڈٹس کے داخلوں کیلئے 60 فیصد کوٹہ سندھ کی طالبات کیلئے مختص ہے جبکہ دیگر 40 فیصد طالبات کو ملک کے دیگر علاقوں سے لیا جاتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کیلئے کھودے گئے لاڑکانہ شہر میں دھول، مٹی اور گردوغبار کی وجہ سے مخالفین ایک سال قبل تک اس کے قریبی آثار قدیمہ کے تاریخی موہنجودڑو سے تشبیہ دیتے تھے۔

الیکشن سے قبل لاڑکانہ کے مختلف ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے تو لاڑکانہ جدید شہروں میں شامل ہوگیا۔ شہر کے اطراف کی بڑی سڑکیں ضلع کے وقار میں اضافہ کا سبب بن رہی تھیں۔

لاڑکانہ شہر کی اندرونی 66 سڑکوں میں 37 الیکشن سے پہلے مکمل کی جاچکی تھیں اور دیگرپر کام جاری تھا۔ ترقی کے اس سفر کو بھی عوام تک نہیں پہنچایا گیا بلکہ استفادہ کرنے والے لوگوں نے ووٹ کی شکل میں فیصلے کیے۔

سکھر، میرپورخاص، حیدرآباد اور دیگر علاقوں میں بھی ترقیاتی کام ہی تھے جن کی بدولت عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ آیا۔ یہ سفر جاری رہا تو کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والی پیپلزپارٹی واپس قومی دھارے میں شامل ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین