• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل ایک مسلم لیگی اور نظریاتی لیڈر سے ملاقات ہوئی۔ قائداعظم کا ذکر چل نکلا تو انہوں نے مرض کی صحیح تشخیص کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیڈران ہر وقت قائداعظم کے ذکر سے اپنی تقریروں کو سجاتے ہیں لیکن حققیت یہ ہے کہ ان کی قائداعظم اور تاریخ پاکستان بارے معلومات یا مبلغ علم ماشا اللہ خاصا سطحی ہے۔ قائداعظم کی تاریخ پیدائش تو سبھی بتا دیں گے کہ اس روز قومی چھٹی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی قائداعظم کی تاریخ وفات نہیں بتا سکے گا۔ میں اس کا اعتراف حقیقت سن کر محظوظ ہوا کیونکہ مجھے علم ہے کہ سیاستدان تو سیاستدان ماشا اللہ ہمارے بڑے بڑے دانشوروں، لکھاریوں اور کالم نگاروں نے بھی نہ کبھی قائداعظم کی تقریریں پڑھنے کی زحمت گوارہ کی ہے نہ ان کے تصورات اور کردار کے عظیم گوشوں سے آگاہ ہیں بس دو چار واقعات سن رکھے ہیں انہی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ رہے بائیں بازو کے دین بیزار اور نام نہاد لبرل دانشور تو انہیں قائداعظم کی سینکڑوں تقریروں میں سے فقط 11اگست1947کی تقریر کے چند فقرے یاد ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ علم نہیں ہے کیونکہ ان کے ڈنگ ٹپاؤ علم کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے۔ ان میں کچھ الٹرا لبرل دانشوروں نے رٹ لگا رکھی ہے کہ 11اگست کی تقریر سیکولر پاکستان کا خواب ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس تقریر میں قائداعظم نے اقلیتوں کو جن برابری کے حقوق کا عندیہ دیا تھا وہ میثاق مدینہ کا روشن اصول ہے۔ قائداعظم نے تو میثاق مدینہ سمجھ رکھا تھا اور اس کا دو بار حوالہ بھی دیا جبکہ ہمارے یہ دانشور مغرب کی تاریخ اور امریکہ کی سیاست کے تو ”حافظ“ ہیں لیکن تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان سے تقریباً نابلد قیام پاکستان سے قبل قائداعظم نے 101بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار برملا اعلان کیا کہ ”پاکستان کے ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پررکھی جائے گی، پاکستان جمہوری، فلاحی اور روشن خیال ریاست ہوگی“۔ انہوں نے فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام پیغام میں پاکستان کو پرئمیر اسلامک ریاست قرار دیا لیکن ہمارے دین بیزار دانشور سیکولر پاکستان کی رٹ لگا رہے ہیں حالانکہ سیکولر کا لفظ کبھی بھی قائداعظم کے ہونٹوں پہ نہیں آیا۔ تجاہل عارفانہ کا اندازہ لگایئے کہ اب ”وہ“ کہتے ہیں قائداعظم کو قتل کیا گیا۔ ان کے کس کس الزام یا الہام کا جواب دیا جائے۔ تاریخ کا ہر صفحہ گواہی دیتا ہے کہ قائداعظم کا مرض پرانا تھا اور وہ قیام پاکستان تک اس مرض کے ہاتھوں سوکھ کر کانٹا ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود دن رات کام کرتے رہے۔ زیادہ بیمار ہوئے تو کوئٹہ اور زیارت میں چلے گئے جہاں انہیں پاکستان کے بہترین معالجوں کی خدمات میسر تھیں، جب ڈاکٹر مایوس ہوگئے کہ موت بہرحال برحق ہے تو انہیں کراچی لے آئے۔ قائداعظم پر جان نچھاور کرنے والی بہن محترمہ فاطمہ جناح ہر لمحہ ان کے ساتھ تھیں۔ انہی کے سامنے قائداعظم نے زندگی کے آخری سانس لئے۔ ایئرپورٹ سے شہر آتے ہوئے ایمبولینس خراب ہوئی تو وزیراعظم لیاقت علی خان اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک دوسری ایمبولینس نہیں آئی۔ ایمبولینس کا انتخاب قائداعظم کے انگریز ملٹری سیکرٹری نے کیا اور شہر میں دستیاب ساری ایمبولینسیں منگوا کر بہترین ایمبولینس کا انتخاب کیا ،پھر قتل کہاں سے آگیا؟ قائداعظم کے معالجین جو ہمہ وقت ان کے ساتھ تھے، ان کے اے ڈی سی جو ایک ایک لمحہ کے گواہ ہیں اور خود مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے تو کبھی یہ الزام نہیں لگایا اور نہ کبھی پچاس برس تک یہ بات سننے میں آئی، اب کس ایجنڈے کے تحت قائداعظم کے قتل کا افسانہ پھیلایا جا رہا ہے مجھے علم نہیں… اللہ انہیں ہدایت دے۔ بہتان لگانا اور افواہیں پھیلانا گناہ ہے اور ناپسندیدہ فعل۔ اور ہاں بیمار سوچ کی علامت بھی ہے۔
سیاستدانوں کو اپنی تاریخ سے لاعلمی کی بنا پر جہالت پھیلانے کا الزام اس لئے نہیں دیتا کہ وہ بیچارے ہر وقت پیسے کمانے اور ووٹ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں کتابیں پڑھنے کی فرصت ملتی ہے نہ ہی مطالعے کا ذوق و شوق ہے۔ ان کے محلات میں ٹیلیفون ڈائریکٹری کے علاوہ کوئی کتاب نہیں ملے گی۔ معاف کیجئے گا شنید ہے کہ شہباز شریف نے اپنے گھر میں اچھی لائبریری بنا رکھی ہے لیکن وہ بیچارا پڑھتا کب ہوگا؟ اسے فلائی اووروں اور نوجونواں کے میلوں سے فرصت نہیں پھر شادیوں کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں لیکن میں نے سنا ہے اس کے باوجود وہ پڑھنے کے لئے وقت نکالتا ہے…ورنہ اکثریت پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ جتنے جاہل سیاستدان ہمارے مقدر میں لکھے گئے ہیں اتنے کسی اور قوم کے حصے میں نہیں آئے۔ کل ہی ماشا اللہ دوسیاستدان ایک ٹی وی چینل پر قائداعظم بارے گمراہ کن پراپیگنڈہ کر رہے تھے۔ ان میں ایک دانشور بھی ہے میں اسے صرف دین بیزار سمجھتا تھا لیکن وہ تاریخ پاکستان سے بھی بیزار نکلا۔ پی پی پی کا ایک اپنا مزاج ہے اور اس مزاج میں ہوش کی بجائے جوش کی حکمرانی ہے، اس لئے وہ اپنے مقصد کی خاطر کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگی سیاستدان ہم زبان ہو کر انکشاف کر رہے تھے کہ قائداعظم نے بطور گورنر جنرل پاکستان مسلم لیگ کی صدارت کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔ یہ نہ صرف تاریخی جہالت ہے بلکہ قائداعظم پر بہتان بھی کیونکہ قائداعظم پاکستان مسلم لیگ کے کبھی بھی صدر یا عہدیدار نہیں رہے۔ دو عہدوں کے چکر میں زرداری صاحب کی حمایت کا مطلب پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنا نہیں ۔ آپ جو بہتر سمجھیں کریں لیکن قائداعظم کے نام کو اپنے مقصد کے لئے استعمال نہ کریں۔
میں نے یہ ساری تفصیل اپنی اردو اور انگریزی کتابیں ”مسلم لیگ کا دور حکومت (1947-54)میں حوالوں سے لکھی ہے جسے جنگ پبلشرز لاہور نے چھاپا ہے۔ مختصر یہ کہ اگست سے لے کر دسمبر تک قائداعظم قیام پاکستان کے مسائل میں حد درجہ مصروف تھے۔ جب ذرا فرصت ملی تو انہوں نے دسمبر 1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس کراچی میں بلایا۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مسلم لیگ کو دو حصوں انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ میں تقسیم کر دیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ کے کنونیئر لیاقت علی خان مقرر ہوئے جنہوں نے پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس فروری 1948ء میں بلایا۔ مسودہ آئین پر بحث ہوئی تو طے ہوا کہ جماعتی اور حکومتی عہدوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ پیرمانکی شریف نے ترمیم پیش کی کہ قائداعظم کی ذات کو اس اصول سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ قائداعظم نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحیثیت گورنر جنرل کوئی جماعتی عہدہ نہیں لیں گے کیونکہ سربراہ مملکت کی حیثیت سے انہیں پاکستان کے تمام طبقات کے مفادات کی نگرانی کرنی ہے۔ اس کے بعد چودھری خلیق الزمان مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر منتخب ہوئے۔ ان کی سربراہی میں رکن سازی کی مہم چلی اور پھر مسلم لیگ کونسل نے 1949ء میں چودھری خلیق الزمان کو مسلم لیگ کا صد ر منتخب کرلیا۔ تشکیل کے مراحل میں قائداعظم مسلم لیگ سے وابستہ تھے لیکن انہوں نے جماعتی عہدہ لینے سے انکار کر دیا۔ ان کے جانشینوں خواجہ ناظم الدین، غلام محمد نے بھی یہ روایت نبھائی۔ جب 1950ء میں مسلم لیگ کے آئین میں ترمیم کرکے حکومتی عہدیداروں پر جماعتی عہدوں کی پابندی ختم کی گئی تو پھر بھی وزیراعظم لیاقت علی خان ہی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور ان کے بعد وزراء اعظم ہی مسلم لیگ کے صدر بنتے رہے لیکن سربراہ مملکت ہمیشہ جماعتی عہدوں سے الگ تھلگ رہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے جہالت پھیلانے والوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ قائداعظم کبھی پاکستان مسلم لیگ کے صدر نہیں رہے۔ سیاستدن اور دانشور آزاد لوگ ہیں جو مرضی ہے کہتے رہیں لیکن افسوس تو سپریم کورٹ پرہے جس نے دو عہدوں کے حوالے سے 80صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا ہے، دنیا جہاں کی مثالیں دی ہیں اور پاکستان کے صدور کا ذکر کیا ہے لیکن بانیٴ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی نہ مثال دی ہے نہ ہی ذکر کیاہے اورنہ ان کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ ”بحیثیت گورنر جنرل مجھ پر پاکستان کے تمام طبقات (Sections)کے مفادات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں جماعتی عہدہ نہیں لوں گا“۔ (بحوالہ مسلم لیگ کا دور حکومت صفحہ -51انگریزی کتاب ص33) قائداعظم کا یہ بیان روزنامہ پاکستان ٹائمز بتاریخ 26فروری 1948ء میں موجود ہے جس سے سپریم کورٹ استفادہ کرکے قائداعظم کے حوالے سے یہ بحث ہمیشہ کے لئے ختم کرسکتی تھی۔ مخدوم زادہ حسن محمود نے اپنی کتاب A Nation Is Bornمیں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ افسوس کہ سپریم کورٹ نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھاچنانچہ سیاستدان اور دانشور اس موضوع پر طبع آزمائی کرتے رہیں گے لیکن میں کس کس بات پر افسوس کا اظہار کروں یہاں تو ”افسوسوں“ کی فہرست طویل ہور ہی ہے۔
(گزشتہ کالم میں غلطی کی اصلاح کی تھی، وہ بھی غلط چھپی… قارئین سے معذرت)
تازہ ترین