• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ایک عجیب قوم ہیں ہر لمحے کسی نہ کسی مشکل میں پھنسے رہتے ہیں کچھ نہ کچھ ہمارے گرد ایساہوتا رہتا ہے جو شاید دوسرے ممالک میں نہیں ہوتا۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم جمہوریت چاہتے ہیں یا آمریت۔ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں یا پارلیمانی۔ہم مقامی حکومتوں کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں یا سرکاری ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے۔ویسے تو ہمارے ہاں حالات ہمیشہ ہی خرابی کی طرف مائل رہتے ہیں لیکن پچھلے چند روز سے خبروں میں گردش کرتے مختلف بیانات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں دکھائی دے رہے ہیں ، ایک ایسے وقت پر جب ملک میں نومولودجمہوریت اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کی کوشش میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ، ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوتا نظرآ رہاہے اور جب ہم الیکشن سے چار سے چھ ماہ دور کھڑے ہیں ایسے میں کسی بھی ادارے کے آپسی جھگڑے کی سزا جمہوریت کو نہیں ملنی چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے عہدہ صدارت سے علیحدہ ہونے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعدسے لے کر اب تک پاکستان کے مختلف اداروں نے اپنی اپنی طاقت کو بڑھانے اور اپنے دائرہ اختیار کا تعین کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ اقدامات کئے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں افواج پاکستان اور عوام کے درمیان اگر کوئی خلیج پیدا ہوئی تو اسے جنرل کیانی کی قیادت میں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جنرل کیانی نے افواج پاکستان کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا جو اعلان کیا وہ بھی قابل تحسین ہے۔ جنرل کیانی اپنے اس اعلان پر کتنا عمل پیرا ہوئے شاید ایک قابل بحث موضوع ہے۔ آخر یہ جنرل کیانی ہی تھے جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی کے لئے میاں نواز شریف کی قیادت میں نکالی گئی ریلی کو گوجرانوالہ میں ہی چیف جسٹس کی بحالی کی نوید سنادی تھی۔ کسی بھی دوسرے جمہوری ملک کے آرمی چیف کی جانب سے ایسا قدم اٹھایا جانا اچنبھے کی بات ہوتالیکن ہمارے ملکی ماحول میں شاید اس طرح کی باتیں قابل اعتراض نہیں سمجھی جاتیں۔ ادارے 1950ء سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ جوڑے ہوئے تھے اور اس رشتہ کو کچھ لوگوں نے تلوار اور قلم کے رشتے سے تشبیہ دی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج ایک ادارہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں تلوار سے تعلق رکھنے والے سربراہ کا بہت ہی اہم کردار ہے۔2009ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صدر زرداری کو اس با ت پرآمادہ کیاتھا کہ سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنا ن ججوں کو واپس ان کے چیمبرز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
جنرل مشرف کی حکومت کے خاتمہ کی ایک بڑی وجہ جس کا وہ بارہا اعتراف کر چکے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان کی معزولی تھی۔ جنرل مشرف تو چلے گئے لیکن چیف جسٹس کی بحالی کا مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا تھا۔ آخرکار جب چیف جسٹس بحال ہوئے تو ان کی سربراہی میں بحال ہونے والی عدلیہ نے پھر ایسے تاریخی فیصلے کئے کہ جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور مستقبل میں بھی مشکل سے ہی ملے گی۔ چیف جسٹس کے زیر سایہ سپریم کورٹ میں ہونے والے فیصلے پاکستان میں بہت بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی نوید سناتے نظر آئے۔ ان ہی فیصلوں میں ایک فیصلہ آئین پاکستان میں ترمیم سے متعلق بھی تھا۔سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ ترامیم کو رد کیا اور نہ صرف اس کیس کے لئے بلکہ اسکے بعد بھی پاس کی گئی کسی بھی آئینی ترمیم کوسپریم کورٹ کی جانب سے رد کئے جانے کے امکان کو جنم دے دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کو جہاں بہت سے حلقوں میں سراہا گیا وہیں چند سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت بھی کی گئی۔کچھ اراکین قومی اسمبلی نے اسے پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔اراکین اسمبلی کی نظر میں قومی اسمبلی اور سینٹ چونکہ قانون ساز ادارے ہیں اس لئے قانون سازی صرف ان کا کام ہے۔ ایک موقع پر تو صدر مملکت نے کہا کہ ہر طاقت پارلیمنٹ کے سامنے جھکتی جارہی ہے۔ جبکہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے سیاسی افراد کے اس موقف کو رد کر تے ہوئے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہی اس آئین کی تشریح کرنے کی مجاز ہے۔ اس فیصلے سے سپریم کورٹ کو بہت سے ایسے اختیارات بھی حاصل ہو گئے کہ جن کے بارے میں سیاستدانوں کا خیال تھا کہ وہ صرف منتخب نمائندوں اور پارلیمنٹ کا استحقاق ہیں۔ حکومتی پارٹیوں کی جانب سے گو اس فیصلے کے خلاف بھرپور بیان بازی کی گئی لیکن عملی طور پر حکومت نے سپریم کورٹ کی بات تسلیم کر لی۔ اس سارے کیس کے دوران اپوزیشن نے بھی سپریم کورٹ کا ساتھ دیا جس سے سپریم کورٹ کے موقف کو اور تقویت ملی۔ حکومتی اراکین اسمبلی یہی کہتے پائے گئے کہ کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے پاکستان کے مروجہ قوانین کے تحت پاکستان پر حق حکمرانی اگر خداکے بعد کسی کا ہے تو وہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہیں۔ اس سے مختلف رائے رکھنے والے افراد کو کسی بھی قسم کی قیاس آرائیاں کرنے سے پہلے آئین پاکستان کا بغورمطالعہ کر لینا چاہیے،مگر یہ سب محض کہنے کی حد تک تھا۔
پاکستان کی سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکی ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے اگر کچھ قربانیاں دینی بھی پڑیں تو اس سے دریغ نہیں کرناچاہئے۔ اسی لئے نہ صرف آئینی ترمیم کے عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا گیابلکہ عدالتی فیصلے کی زد میں آنے والے حکومت کے سربراہ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کی قربانی بھی دی گئی۔پاکستان میں اس سے پہلے بھی بہت بار وزیراعظم پر توہین عدالت کا الزام لگا لیکن کبھی کوئی وزیر اعظم عدالت کے ہاتھوں سزا یافتہ ہو کر اپنے گھر نہیں گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عدلیہ سے محاذ آرائی کرنے کی بجائے اپنے وزیراعظم کی قربانی دے دی تاکہ سسٹم کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن پچھلے چند دنوں سے جاری کشمکش کی انتہاء کے نتیجے میں جب بظاہر معاملات طے ہوتے نظر آرہے تھے اور محسوس ہورہاتھا کہ تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مستقبل میں اکٹھے چلیں گے تو نہ جانے راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے کم ہوتے ہوئے ٹمپریچر کو یہ کہہ کر کیوں بڑھایا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کرپٹ افراد،افسران بشمول جنرلوں کو گرفتار کیا جائے ،5 نومبر 2012ء کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جنرلوں کی کرپشن بے نقاب کرنے پر عدلیہ اور میڈیا کے خلاف دھمکی آمیز بیان دے کر ملک کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔اس قرارداد میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ ماضی میں فوج نے کرپشن اور آئین توڑنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔اس بنا پر سپریم کورٹ ایسی کارروائیاں کر رہی ہے۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کا حلف اٹھانے والے وکلاء کی قرارد اد میں اس فقرے کا کیا جواز ہے۔وہ کیونکر فوج سے اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ فوج آئین توڑنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرے۔اس قرارداد میں جرنیلوں کی تعداد ستر فیصد کم کرکے،ان کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی اور ان کی زیر نگرانی کمرشل اداروں کو فوراً بند کرنے کامطالبہ کس کے کہنے پرکیا جارہا ہے؟ اگر یہ روایت چل پڑی تو کون کس کو روک پائے گا کہ وہ مجسٹریٹ کی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک کے ججز کے بارے میں ایسے سوالات اٹھائے؟خاص طور پر جب قرارداد میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کو ملنے والے ٹھیکوں کی انکوائری کرانے کی بات کی گئی ہے ۔ راولپنڈی بار کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے ۔اگر ایک ادارے نے دوسرے ادارے کے حوالے سے اس بحث کو اس انداز سے جاری رکھا تو ملک میں انارکی تو پیدا ہوگی مگرمسائل حل نہیں ہونگے،کرپشن ختم نہیں ہوگی،لوٹ مار ختم نہیں ہوگی،ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ملک اس وقت کسی بھی قسم کی ایسی محاز آرائی کاشکار ہونا برداشت نہیں کر سکتا۔ خدارا جو جس کا بھی حامی ہے وہ اس کی حمایت آئین قانون کے دائرے میں رہ کر کرے۔توجہ حل نکالنے پر ہونی چاہیئے ، گند اچھالنے پر نہیں ،ایسا حل جو حقیقی معنوں میں پاکستان کو تمام خرابیوں سے نجات دلوا سکے۔ کوئی ادارہ اکیلے طور پر اچھی طرز حکمرانی کو یقینی نہیں بنا سکتا، پاکستان کی بقاء سب اداروں کے ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کا احترام کرنے اور مل کر مسائل کا حل ڈھونڈنے میں ہے۔
تازہ ترین