• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاکستان کے ساتھ ہی پروان چڑھ کر جوان، نوجوان، مزید جوان اور پھر بزرگ شہریوں کی صف میں شامل ہوا ہوں۔ اس لئے میں پاکستان کی جوانی کا عینی گواہ ہوں البتہ بچپن کا کوئی خاص علم نہیں کیونکہ اس وقت میں بھی بچپن کی سہانی وادی سے گزر رہا تھا۔ بچپن بڑا معصوم اور حسین ہوتا ہے اور معصومیت کا تقاضا کم علمی ہوتا ہے کیونکہ جوں جوں انسان کی معلومات، مشاہدات اور علم میں اضافہ ہوتا ہے وہ اپنی معصومیت کھو دیتا ہے اور سوچ بچار میں مبتلا ہو کر غموں کا بوجھ اٹھانے لگتا ہے۔ چنانچہ میں نے پاکستان میں حکومتوں کو بدلتے، حکمرانوں کو عروج و زوال کا شکار ہوتے، قوم کو جذبوں سے مالا مال ہوتے اور غموں کا بوجھ اٹھاتے بھی دیکھا ہے۔ اگست کے حوالے سے مجھے یاد آتا ہے اور کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ جب 15اگست 1947ء کو صدیوں کی غلامی کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور صدیوں کی تاریکی کے بعد جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تو قوم کا ہر فرد جذبوں، خوشیوں سے مالامال تھا اور فتح کے احساس سے معمور تھا۔ فتح کا احساس یا احساس برتری تاریخ کی اس حقیقت سے پھوٹا تھا کہ مسلم لیگ___پاکستان کی خالق جماعت ___ اور قائد اعظمؒ نے بیک وقت انگریز حاکموں، برطانوی حکومت اور ہندو کانگرس کو شکست دے کر پاکستان قائم کیا تھا اس لئے پاکستان کے عوام ایک عجیب قسم کے احساس فتح یا احساس برتری کے نشے سے ’’چُور‘‘ تھے۔ اس کیفیت کو بہت سے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں نے کہانی کا روپ دیا ہے لیکن مجھے اس حوالے سے جس افسانے نے متاثر کیا وہ تھا سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’نیا قانون‘‘___ میں نے یہ افسانہ کالج میں داخلے کے بعد شاید 1960ء میں پڑھا جب قوم کا احساس برتری زمینی حقائق کے سبب زوال پذیر تھا۔ آج کل ہمارے قلم کار 1958ء میں لگنے والے ایوبی مارشل لاء کی مذمت کرتے تھکتے نہیں اور بڑے شوق سے جنرل ایوب خان پر سنگ باری کرتے ہیں لیکن میں گواہ ہوں کہ جب ایوب خان نے ٹیک اوور کیا تو چند سیاسی خانوادوں اور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ قوم نے اس کا بھرپور استقبال کیا تھا اور لاکھوں کی تعداد میں مبارکباد کی ’’تاریں‘‘ (ٹیلی گرام) بھیجی تھیں۔ بھلا ایسا کیوں تھا؟ دراصل قوم اپنے سیاسی حکمرانوں کی بے اصول سیاست، گھٹیا سیاسی چالوں، محلاتی سازشوں اور عدم استحکام سے تنگ آ چکی تھی۔ قوم کو یہ تبدیلی جسے ایوب خان نے خاموش انقلاب کا نام دیا بہت اچھی لگی۔ مزید تجزیہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ قوم حال میں زندہ رہتی ہے، حال کے مضمرات کیا ہوں گے قوم کو اس سے غرض نہیں ہوتی چنانچہ قوم معصوم بچوں کی طرح تبدیلی کو خوش آمدید کہتی ہے اور تبدیلی سے بہت سی توقعات وابستہ کر کے خواب دیکھنے شروع کر دیتی ہے۔ جب خوابوں کا خمار ٹوٹتا اور توقعات کا سورج غروب ہوتا ہے تو قوم پچھتاوے سے ہاتھ ملنے لگتی ہے اور حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیتی ہے۔ 1958ء میں ایوبی مارشل لاء کا استقبال اور خوشی سے نعرے لگانے والی قوم کو میں نے 1969ء میں سڑکوں پر احتجاج کرتے اور ایوب خان کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ قوم دو شیطانی چکروں (Vicious Circles)میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ وہ توقعات اور امیدوں کے چراغ جلا کر نئے حکمران کا استقبال کرتی ہے اور پھر چند برس بعد ناراض ہو کر اُسے نکالنے کی ترکیبیں ڈھونڈنے لگتی ہے۔ مختصر یہ کہ قوم بیچاری ابھی تک ان دو وادیوں اور دو ’’کیفیتوں‘‘ کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ ایک حکمران کو جوش و جذبے کے ساتھ تخت نشین کرتی ہے، جشن مناتی اور توقعات کے ڈھول بجاتی ہے اور پھر اس سے مایوس ہو کر اُس کے خلاف نعرے لگاتی اور اُس کا دھڑن ’’تختہ‘‘ کرنے کی خواہشات پالنے لگتی ہے۔ بھلا ہو جمہوریت کا کہ لوگوں کو سڑکوں پر نہیں آنا پڑا اور وہ ’’پرچی‘‘ ڈال کر اپنا غصہ نکال لیتے ہیں ورنہ میں نے اپنی معصوم آنکھوں سے حکومتوں کو احتجاج اور گولی کے ذریعے ہی بدلتے دیکھا ہے۔
بعض باتیں یا اصول انسان کے مطالعے، مشاہدے اور غور و فکر کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ میں نے یہ بات مذہبی اور روحانی کتابوں میں پڑھی ہے اور اس کا خوب مشاہدہ بھی کیا ہے۔ مشاہدہ تبھی ہوتا ہے جب تدبر کی آنکھ کھلی رہے اور انسان غور و فکر سے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش بھی کرتا رہے۔ میرا یہ پختہ مشاہدہ ہے کہ معصوم کا خون اور لوٹ مار یا کرپشن کا پیسہ ضرور بولتا ہے۔ اسے زیادہ دیر تک چھپایا جا سکتا ہے نہ چپ کرایا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہماری آنکھوں کے سامنے عبرت کا سامان پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات اگلی نسل کی رگوں میں زہر پھیلاتا اور عبرت کی مثالیں قائم کرتا ہے۔ یہ فیصلہ قدرت خود کرتی ہے کہ اسے کب اور کس طرح ’’بولنا‘‘ اور عبرت بننا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گائوں سے لے کر بڑے شہروں تک میں نے اس کی اَن گنت مثالیں اور مظاہرے دیکھے ہیں اس لئے نئی نسل کو اپنا یہ مشاہدہ منتقل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے۔ قوم امید اور خوشی کے گلستان میں ٹہل رہی ہے۔ دعا ہے کہ لوگوں کی توقعات کے نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ لوگ بڑھ چڑھ کر حکمرانوں پر مشوروں کی بارش کر رہے ہیں حالانکہ میرا تجربہ ہے کہ حکمرانوں کو مشوروں کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مشیروں کے اسیر ہوتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی مشوروں کے ڈھیر پر چند ایک کاغذی مشوروں کا اضافہ کر دوں۔ مثلاً یہ کہ وزیر اعظم بن کر عمران خان سارے قومی سیاستدانوں کو سادہ کھانے پر بلائے، اُن کو محبت، یگانگت، صلح کل اور ہم آہنگی کا پیغام دے اور پھر ملک کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کی تصویر دکھا کر ان سے تعاون کی اپیل کرے۔ یہ ایک اچھا آغاز ہو گا اور قوم کو پتہ چل جائے گا کون سے لیڈران اپنی ذات کے گنبد سے نکل کر قوم کی خدمت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاستدانوں کو بیرون ملک سے اثاثے واپس لانے کی اپیل کرے اور ملک کے نام پر ان سے اپیل کرے۔ یہ تو ہے میرا خواب لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کے قومی سیاستدان بیرون ملک پڑے ڈالر بچانے کے لئے وزیر اعظم قربان کر دیں کیا وہ قانون کے شکنجے کے بغیر کبھی اثاثے واپس لائیں گے؟ کبھی چھپائی ہوئی دولت کو ہوا لگنے دیں گے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟ ہمارے سابق حکمرانوں کی دولت اور اثاثوں پر امریکہ اور انگلستان کے اخبارات خندہ زن ہیں، اُن کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔ میرے مطالعے کا نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا استحکام قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور احتساب میں مضمر ہے۔ میرے خوابوں کی کسے پروا ہے؟ ہائے رے میرے خواب!!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین