• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مئی 1991ء کی بات ہے۔ نواز شریف وزیرِ اعظم پاکستان تھے۔ غلام حیدر وائیں (مرحوم) وزیر اعلیٰ پنجاب اور شاہ محمود قریشی اُن کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ راقم محکمہ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تعینات تھا۔ ایک روز اپنے دفتر میں موجود تھا کہ دروازہ کھلا اور پسینے میں شرابور، ایک ممبر اسمبلی کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ پارہ چڑھا ہوا تھا۔ سخت غصے کے عالم میں اُنہوں نے فائل میز پر رکھی اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’سر! آپ کو علم ہے کہ اِس ملک میں جمہوریت کب کامیاب ہوتی ہے؟‘‘ اُنہیں میرے جواب کا انتظار نہیں تھا۔ سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے، کرسی سے اُٹھے اور اجازت لے کر منہ ہاتھ دھونے کے لئے باتھ روم کا رُخ کیا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے میری طرف رُخ کر کے کہنے لگے ’’منہ ہاتھ دھو کر تروتازہ ہو جائوں تو آپ کو کامیاب جمہوریت کا فارمولا بتائوں گا۔‘‘
قارئین کی دلچسپی کے لئے اِس گفتگو کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروائے۔ سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ جن لوگوں نے الیکشن لڑا، اُنہوں نے ذاتی مقبولیت کی بنیاد پر ووٹ لئے۔ اسمبلیاں وجود میں آ گئیں۔ چونکہ تمام ممبران آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے، اِس لئے پارٹی ڈسپلن مفقود تھا۔ اُنہوں نے نواز شریف کو چیف منسٹر تو منتخب کر لیا مگر اُن کی وفاداری کو مستقل طور پر قائم رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ حالات کے جبر نے نئے طریقے دریافت کئے۔ ممبران اسمبلی کو تعمیراتی منصوبوں کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے گرانٹ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو ممبران اسمبلی چیف منسٹر سے اختلاف کرتے، اُن کی گرانٹ روک لی جاتی۔ سرکاری نوکریوں کی بندربانٹ میں بھی اپنے حامی ممبران اسمبلی کا خیال رکھا جاتا۔ افسران کی تعیناتی اور تبدیلی میں بھی اُن کا کردار بڑھنے لگا۔ قانون سازی کے بجائے اُن کی توجہ حکومت کے انتظامی اور مالی امور میں مداخلت پر مرکوز ہو گئی۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو میدانِ سیاست میں بدعنوانی نے فروغ پایا۔ پاکستان کی سیاسی اور انتظامی تاریخ میں کئی ایسے اہم واقعات ہیں جن کے مضر اثرات سے ہمارا حال آج تک متاثر ہے۔ 1985ء کا الیکشن اور نتیجے میں وجود پانے والا غیر جماعتی جمہوری نظام بہت سی خرابیوں کا موجد بنا۔
اِس خرابی کے اثرات، 1988ء کے جماعتی الیکشن کے بعد بھی جاری رہے۔ مرکز میں، دُوسری جماعتوں کی حمایت سے پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ پنجاب کی صوبائی حکومت، مسلم لیگ (ن) کے حصے آئی۔ اِس کی تشکیل بھی حلیف جماعتوں اور آزاد ممبران اسمبلی کی مرہونِ منت تھی۔ پاکستان میں صحت مند جمہوری روایات کا فقدان اُس وقت اور بھی نمایاں تھا۔ ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا دس سالہ دور ختم ہوا تو یحییٰ خان کا مارشل لاء آ گیا۔ آدھے ملک کی قربانی کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو چند سال بعد ضیاء الحق کا دور شروع ہو گیا۔ ایک طویل انتظار کے بعد غیر جماعتی الیکشن ہوئے۔ محمد خان جونیجو نے خلاف توقع، ایک بہتر حکومت قائم کی۔ اُن کی اپنی ذات بھی بے داغ رہی مگر آزاد پالیسیوں کی وجہ سے صرف تین سال بعد حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔
اِن حالات میں جمہوری روایات کیسے پنپ سکتی تھیں۔ بینظیر کی حکومت کو ادراک تھا کہ پنجاب میں نواز شریف کی سیاسی طاقت اُسے پریشان کئے رکھے گی۔ اُن دنوں پارٹی تبدیل کرنے پر تادیبی کارروائی کا قانون موجود نہ تھا۔ مرکزی حکومت کے وزیروں نے پنجاب کی حکومت توڑنے کے لئے لاہور کے چمبہ ہائوس میں ڈیرہ جما لیا۔ ہر روز اخبارات میں خبریں چھپتیں یا چھپوائی جاتیں کہ پنجاب اسمبلی کے ممبران وفاداریاں تبدیل کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں اور نواز شریف کی حکومت چند دن کی مہمان ہے۔ دوسری طرف پنجاب کی صوبائی حکومت بھی قومی اسمبلی کے ممبران کو وفاداری تبدیل کرنے کی ترغیب دیتی رہتی۔ یہ سیاسی کھینچا تانی کا ایک تاریک دور تھا۔ دونوں حکومتوں کی انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ مرکزی حکومت نے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو تبدیل کر دیا۔ حکومت پنجاب نے حکم دیا کہ افسران چارج نہ چھوڑیں۔ مرکزی حکومت نے افسران کو معطل کرنے کی دھمکی دی۔ اُن دنوں گوجرانوالہ کے ڈی آئی جی پولیس کا قصہ بہت مشہور ہوا۔ ضمنی الیکشن ہونے والے تھے۔ الیکشن کمیشن نے رائے دہندگان کے لئے شناختی کارڈ لازم قرار دیا۔ شناختی کارڈ کا دفتر مرکزی حکومت میں محکمہ داخلہ کے ماتحت ہے۔ لیگی امیدوار کے حامیوں نے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ اُن کو خدشہ تھا کہ صرف مخالف پارٹی کے کہنے پر شناختی کارڈ بنائے جا رہے ہیں۔ وہ اسلحہ لہراتے ہوئے آئے اور دفتر سے تیار شناختی کارڈوں سے بھرے بیگ اُٹھا کر لے گئے۔ وفاقی حکومت نے حکم دیا کہ اُن کے خلاف مقدمہ درج کر کے حراست میں لیا جائے۔ صوبائی حکومت نے عمل درآمد نہ کیا۔ وفاقی حکومت نے ڈی آئی جی کو اسلام آباد رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ عدم تعمیل کی صورت میں معطلی کا خطرہ تھا۔ جواب میں چیف منسٹر نے پیغام بھیجا کہ افسر چارج نہ چھوڑے۔ بیچارہ ڈی آئی جی خوفزدہ ہو گیا۔ وہ صبح سویرے بغیر کسی کو اطلاع دیئے، اسلام آباد کی طرف نکل گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو علم ہوا تو پولیس کو حکم ملا کہ اُسے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے روکا جائے۔ سرکاری ملازمین کے لئے یہ ابتلا کا دور تھا۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اِس کشمکش کے دور میں ممبران اسمبلی کی چاندی ہو گئی۔ کھینچا تانی میں شدت آئی تو پنجاب حکومت نے ارکان اسمبلی کی وفاداری قائم رکھنے کے لئے ایک انوکھا قدم اُٹھایا۔ محکمہ پولیس اور ایکسائز میں نئی اسامیوں پر بھرتی کے لئے، امیدواروں کا چنائو، اپنے وفادار ارکان اسمبلی کے سپرد کر دیا۔ عوامی نمائندے طاقت کے نشے میں آپے سے باہر ہو گئے۔ سرکاری افسر کسی ناجائز کام سے انکار کرتا تو غصے میں وزیرِ اعلیٰ سے شکایت کرنے لاہور پہنچ جاتے۔ اُن دنوں وزیرِ اعلیٰ نے اعلان کیا کہ اگر کسی ضلع کے تمام ارکان اسمبلی کسی سرکاری آفیسر کو ضلع بدر کرنا چاہتے ہیں تو لکھ کر دے دیں۔ اُن کی سفارش پر عمل ہو گا۔
اِس تحریر کے شروع میں ایک رکن اسمبلی کا ذکر ہوا تھا جو پریشانِ حال میرے دفتر میں تشریف لائے تھے۔ اُنہوں نے اِس دور میں ایک اچھوتا کام کیا۔ اپنے ضلع کے تمام ممبران اسمبلی سے ایک کاغذ پر دستخط کروا لئے کہ اِس افسر کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ کمال ہوشیاری سے اُنہوں نے افسر کے نام کی جگہ خالی رکھی اور یہ کاغذ دکھا کر سرکاری افسروں پر ناجائز کاموں کے لئے دبائو ڈالتے رہے۔
ممبران اسمبلی کی غیر معمولی اہمیت کا یہ دور 1990ء میں ختم ہوا۔ بینظیر کی حکومت کو گھر بھیج کر نئے الیکشن ہوئے۔ مرکز اور پنجاب، دونوں میں واضح اکثریت کے ساتھ آئی جے آئی کی حکومت بنی۔ دونوں اسمبلیوں میں حکومتی پارٹی کو اتنی اکثریت حاصل تھی کہ ممبران اپنی گزشتہ اہمیت کھو بیٹھے۔ نہ افسران پر کنٹرول رہا اور نہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اُن کے دبائو میں آتے۔
میں اِن بدلے ہوئے حالات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ باتھ روم کا دروازہ کھلا اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد ممبر اسمبلی میرے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ ابھی بھی نفی میں سر ہلا رہے تھے۔ کہنے لگے ’’سر! اِس فائل میں پانچ چھ کاموں سے متعلقہ کاغذ ہیں۔ کوئی ایسے اہم بھی نہیں۔ صبح تین گھنٹے سفر کر کے لاہور آیا ہوں اور وائیں صاحب (غلام حیدر وائیں، وزیر اعلیٰ پنجاب) اندر بیٹھے میٹنگ کر رہے ہیں۔ باہر گرمی میں خوار ہو رہا تھا کہ مجھے آپ کا خیال آیا۔ مہربانی فرما کر چائے پلا دیں۔‘‘ پھر ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگے ’’وائیں صاحب تو سیکرٹریٹ میں دفتر لگاتے ہیں۔ چند مہینے پہلے وہ وقت تھا کہ سات کلب، (جی اور آر میں وزیر اعلیٰ کا دفتر) آتے تو دربان جھک کر سلام کرتے۔ ہمیں ٹھنڈے کمرے میں بٹھایا جاتا۔ کھانے کے لوازمات پیش ہوتے۔ وزیر اعلیٰ میٹنگ میں مصروف بھی ہوتا تو دروازہ کھولنے پر پابندی نہیں تھی۔ دو منٹ میں ہر درخواست منظور ہو جاتی۔‘‘ پھر موجودہ حالات پر افسوس کا اظہار کرنے کے بعد، اُنہوں نے جمہوری نظام کی کامیابی کا وہ فارمولا ہماری نذر کیا جس کا وعدہ اُنہوں نے شروع میں فرمایا تھا۔ کہنے لگے ’’پاکستان میں جمہوریت صرف اُس وقت کامیاب ہے جب حکمران پارٹی کی اکثریت صرف ایک دو ممبران کے دم سے قائم ہو۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین