• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف حلف اٹھانے کی تیاریوں میں مشغول ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں احتجاجی تحریک چلانے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ گزشتہ دنوں متحدہ مجلس عمل کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہناتھا کہ وہ حالیہ الیکشن کو عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ سمجھتے ہیں اور کسی صورت بھی جمہوریت کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا ، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں ہیں۔ گوکہ پیپلزپارٹی نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کی مگر پی پی قیادت نے بھی انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے تحریک چلانے کے بجائے پارلیمنٹ میں احتجاج کا جمہوری طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا ۔جس پر وہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت سازی اور وفاق میں 43 سیٹیں ڈیل کا حصہ ہیں، اس لئے اب وہ کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ تجزیہ نگاروں کے بقول حالیہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں جس دھاندلی کا الزام لگارہی ہیں، پورے ملک میں اس حوالے سے یہ تاثر موجود ہے۔ خاص طور پر آر ٹی ایس کی خرابی اورپولنگ ایجنٹس کو فارم 45 نہ دیئے جانے کی شکایتیں زیادہ ہیں۔میری جب کراچی میں یورپی یونین مبصرین سے ملاقات ہوئی تو وہ اس بات پر متفق تھے کہ حالیہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو مساوی اور مکمل آزادی دکھائی نہ دی۔ سب سے دلچسپ صورتحال کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون کے حلقہ این اے 249 میں پیش آئی جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف امیدوار تھے اور میں رانا مشہود کے ہمراہ اس حلقے میں انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ اس حلقے میں اے این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی شہباز شریف کو سپورٹ کررہی تھیں جبکہ میں بھی الیکشن کے روز رانا مشہود اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کے ہمراہ پورے دن حلقے کا دورہ کرکے انتخابی عمل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا رہا، ہم جہاں بھی جاتے، لوگوں میں بڑا جوش و خروش دیکھنے کو ملتا،مگر الیکشن کا وقت ختم ہونے کے کچھ دیر بعد پولنگ ایجنٹس کی یہ شکایتیں آنا شروع ہوگئیں کہ اُنہیں ووٹوں کی گنتی کے موقع پر پولنگ بوتھ سےجانے کا کہا جا رہا ہے کہ کل واٹس ایپ پر نتائج سے آگاہ کر دیا جائے گا۔ تاہم الیکشن کے اگلے روز شہباز شریف کے مخالف پی ٹی آئی امیدوار فیصل واوڈا کو 700 ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار دے دیا گیا جبکہ اس حلقے سے 2700 سے زائد ووٹوں کو مسترد کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی میں ایک لاکھ 14 ہزار سے زائد قیمتی ووٹ مسترد کئے گئے اور اگر یہ ووٹ مسترد نہ کئے جاتے تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔
حالیہ الیکشن پر دھاندلی کا الزام لگا کر گورنر سندھ محمد زبیر نے احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ محمد زبیر کا کہنا تھاکہ یوں لگتا ہے کہ پشاور سے کراچی تک نتائج Manage یعنی اپنی مرضی سے مرتب کئے گئے۔
ان کے بقول آر ٹی ایس بیٹھا نہیں بلکہ جان بوجھ کر بٹھایا گیا تھا اور اب تک ووٹوں کی دوبارہ گنتی جاری ہے۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور کے مقابلے میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں میڈیا زیادہ آزاد تھا۔ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں اور گورنر سندھ کے حالیہ الیکشن پر لگائے گئے الزامات کے بعد لازم تھا کہ اُن الزامات کو غلط ثابت کیا جائےتاکہ ابہام کا خاتمہ ہو۔ الیکشن کے حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ اگر صرف فیصل واوڈا اور عامر لیاقت کے حلقوں میں دوبارہ گنتی کروائی جائے توحقائق عیاں ہو سکتے ہیں۔
وفاق کے بعد پنجاب میں بھی حکومت سازی کا معاملہ دلچسپ صورتحال اختیار کرگیا ہے جہاں (ن) لیگ اور تحریک انصاف دونوں ہی حکومت بنانے کے دعوے کررہی ہیں جبکہ نمبر گیم بڑھانے کیلئے آزاد امیدواروں پر انحصار کیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں آزاد ارکان کی بطور ’’کنگ میکر‘‘ قدر و قیمت بڑھ گئی ہے جن کی حمایت حاصل کرنے کیلئے گزشتہ دنوں جہانگیر ترین اپنے طیارے میں کچھ آزاد ارکان کو لے کر اسلام آباد پہنچے۔ گوکہ (ن) لیگ بھی پنجاب میں حکومت بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے مگر سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ (ن) لیگ کی خام خیالی ہے کیونکہ آزاد ارکان جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں اور اس طرح پی ٹی آئی کو پنجاب میں حکومت سازی کیلئے مطلوبہ ارکان میسر آ جائیں گے۔اگر پی ٹی آئی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو اپوزیشن جماعتوں کے تیور دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے وفاق اور پنجاب میں حکومت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، جتنا وہ سمجھ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں پر سبقت حاصل رہی جس کی وجہ عمران خان کی اپنی مقبولیت اور ان کی پارٹی کی طویل جدوجہد اور منشور ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کب تک اقتدار میں لانے والوں کی فیورٹ رہے گی؟

تازہ ترین