چلتا ہے تو چلنے دو
دو بڑی جماعتوں اور ایک اڑی جماعت کو حب الوطنی کے باعث یہ فکر ہے اور ہونی بھی چاہئے کہ سونہڑا نواں ہے چلے نہ چلے، یا غلط چلے، اس لئے لازم ہے کہ چھوٹتے ہی اس کو ایسی اپوزیشن دکھائی جائے اور ایسا ٹف ٹائم دیا جائے کہ اگر وہ نماز کی بھی نیت باندھ لے تو اس کی نیت ہی ٹوٹ جائے وہ پہلی سے دوسری رکعت تک پہنچ نہ پائے، مگر ہماری ادنیٰ سی رائے ہے کہ اگر وہ چلتا ہے تو چلنے دو، مقصد تو ریاست اور اس کے لوگوں کا بھلا ہے، کوئی زمانہ تھا کہ کوچہ سیاست میں جتنے بھی داخل ہوئے پہلی بار داخل ہوئے، پھر وہ ایسے چلے کہ بس چلتے ہی رہے یہ نہ پوچھیں کہ آگے کو یا پیچھے کو، البتہ خود نیچے تھے تو اونچے ہوگئے اور عوامی لوگ تھے عوام کے کاندھوں پر چڑھ کر اور بھی اونچے ہوگئے۔ اب دولت کی تو ملک کے خیر خواہوں کو پروا نہیں مگر حکمرانی کی فکر ہے کہ کہیں اسے اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ پھر سے اس پر سواری کرسکیں۔ شیخ سیاست کو سب سے زیادہ فکر ہے کہ اہل سیاست کیا ایک’’فاسق و فاجر‘‘ کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟ یہ انہیں گوارا نہیں، ان کی ضخامت ریش، ان کی ضخامت علم سے بڑی ہے۔ الیکشن کمیشن پر غصہ ہے کہ اس نے ایک نااہل نما اہل کو امام کیوں بننے دیا اور کروڑوں مقتدیوں کی کوئی پروا نہیں صرف پروا ہے تو فارم 45کی کہ وہ نہ ملا۔ مانگا تو نکال دیا گیا، پنچھی ، پنجرے سے اتنے مانوس ہوگئے تھے کہ پنجرے کا دروازہ کھلنے پر بھی اس سے باہر نکلنے کے روادار نہ تھے۔ بڑے جتن ہوئے نئے سرے سے آزادی کا مفہوم سمجھایا گیا اور بالآخر وہ سمجھ گئے تو اڑکر اپنی اپنی مرضی کی شاخوں پر بیٹھ کر گانے لگے؎
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
٭٭ ٭ ٭ ٭
آزاد بھی پابند نکلے
آزادوں کا شجرہ نسب بتاتا ہے کہ وہ دراصل پابند تھے، کسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے۔ وہ ایک ہی صیاد سے بور ہوگئے تھے، پہلے آزادی حاصل کی پھر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، جیت گئے تو نئے صیاد کے پنجرے میں جوق در جوق داخل ہونے لگے۔ آخری خبروں تک یہ سلسلہ جاری تھا۔ بہترین آزادی تو یہ ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے پابند ہوجائیں گا تاکہ سب بندھنوں سے آزادی ملے، آزادی چمن نےصرف اپنی پابندیاں بولی ہیں، برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں یہاں اکثریت نو مسلموں کی تھی، اسلام کی آفاقیت دیکھ کر وہ ایسے پکے مسلم بن گئے کہ آج ہم میں کسی کو یاد بھی نہ رہا کہ ہم تو نومسلم تھے، یہ تو اب امام پر ہے کہ وہ نوواردان چمن کو اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ساتھ رکھ سکتا ہے یا اس کے ہاتھوں سے بھی یہ پنچھی اڑ کر کہیں اور رین بسیرا کرتے ہیں، انداز کتنا ہی برا ہو مگر اس میں جدت پیدا ہوتی رہے تو کوئی بھی فرار حاصل نہیں کرتا، مگر یہاں تو برا انداز بھی رسم کہن بن گیا اور پنچھی نئے پیڑ پر جابیٹھے، وہ اچھا تھا یا برا نیا تو تھا، فطرت کا قانون ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، ایک حدیث مبارکہ ہے ’’ایک دن چھوڑ کر ملو محبت بڑھتی ہے‘‘، اب یہ پتہ نہیں کہ ایک دن کتنے برسوں کا یا ساعتوں کا ہو، ہم سے دانستہ نادانستہ گھر اتنا خراب ہوگیا ہے کہ اب اسے صاف کرنے میں سب گھر والے مل کر کام کریں گے تو بہتری آئے گی، نیک کام میں تعاون اور ظلم و گناہ میں مدد نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک گھر کے افراد ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دینے لگیں۔ بدلہ لینے لگیں، ایسے گھر اور اجڑ جاتے ہیں تاآنکہ اس میں جن بھوت بسیراکر لیتے ہیں، پھر کوئی عامل کامل آئے نہ آئے اور جنات سے گھر کب پاک ہو یا وہ کوہ قاف بن جائے۔ یہ کہنا کہ ہم’’اسے‘‘ حکومت نہیں کرنے دیں گے، دیکھتے ہیں کیسے چل سکتا ہے، یہ انداز صاف بو دیتا دکھائی دیتا ہے، یہ عذر کیوں نہیں کرتے کہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا رواج عام ہونے سے جمہوریت بکھری ہوئی لکڑیوں کی مانند ہوجائے گی اسے کوئی بھی ایک کلہاڑا مار کر توڑ دے گا اور ہماری حیثیت درخت سے گرے پتوں جیسی ہوجائے گی۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
اب کیا ہوگا؟
جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم یہی سنتے کہتے آئے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ یہ جملہ وہ کہتے ہیں جن سے کوئی غلطی ہوجاتی ہے، پھر حیران پریشان کہتے پھرتے ہیں اب کیا ہوگا؟ یہ نہیں کہ اب کیا کرنا ہوگا، جو آدمی غلطی پر غلطی کرے وہ انسان نہیں بن سکتا اور جو مسلمان ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسا جائے وہ صاحب ایمان نہیں ہوسکتا، ہم کیوں پچھتاوے کاشت کرتے اور کانٹوں کی فصل بار بار کاٹتے ہیں، رزق کمانا گناہ نہیں مگر گناہ کمانا پوری بستی کو برباد کرتا ہے، گناہ کمانا دراصل رزق کو بذریعہ گناہ کمانے کا نام ہے، یہیں سے ہوس جنم لیتی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں، کیا ہمارے ہاں سیاست برائے تعیش و مراعات نہیں کی جاتی رہی، اگر یہی سیاست ہے تو؎
لے کر کوئی’’ سیاست‘‘ کو دوزخ میں پھینک دے
ہماری بربادیوں کی ایک بڑی وجہ سزا کا نہ ملنا اور ناسزا جزاء کا ملنا ہے، اگر غلطی پر گرفت کا کلچر ہوتا تو یہاں وی آئی پی کلچر نہ ہوتا، کسی نے کہا آگے ناکہ ہے اب کیا ہوگا دوسرے نے کہا اب کاکا ہوگا، کمپوڈر نے غلط ٹیکہ لگایا مریض مرگیا وہ ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا اب کیا ہوگا۔ ڈاکٹر نے کہا یہ تو مجھے پتہ نہیں مگر اب میرا کیا ہوگا؟ حکومت چلی گئی سب سر جوڑ کے بیٹھے اب کیا ہوگا، ایک نے کہا اب سر توڑ کے کیا ہوگا ہمارا ملک ٹوٹ گیا تھا ، مگر کسی نے نہ کہا اب کیا ہوگا، شاید یہی وجہ ہے کہ کہتے پھرتے ہیں اب کیا ہوگا؟ الطاف بھائی کی اقتدا میں یار لوگوں نے کتنے سر توڑے، کتنے دل چھلنی کر ڈالے کچھ نہ ہوا پھر بدمست ظالم نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے، سبزہلالی پرچم جلا ڈالا تو قاتل کے ہر دست و بازو نے کہا اب کیا ہوگا؟ جب بھی کوئی یہ کہتا ہے کہ اب کیا ہوگا تو اسے خدائی پکڑ کی ہتھکڑی لگ جاتی ہے، مگر اسے نظر نہیں آتی ، الغرض ہم سب مل کر یہی کہہ سکتے ہیں وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا؎
عمر ساری تو کٹی، اس میں کہ اب کیا ہوگا
وہی ہوگا جو منظور اغیار و اعدا ہوگا
٭٭ ٭ ٭ ٭
کچھ بھی ہوسکتا ہے
٭...نگران وزیر خارجہ، آئی ایم ایف پیکیج پر امریکہ کا بیان نامناسب ہے۔
شاید ہم ہی نامناسب ہیں۔
٭...عمران خان چودھری نثار میں بیک چینل رابطے۔
اس کا مطلب ہے کسی چینل کو پتہ چل گیا ہے۔
٭نگران وزیر ریلوے روشن خورشید پراچہ، سچے دل سے کہتی ہوں سعد رفیق نے بہترین کام کیا۔
اس’’غیر جانبداری‘‘ کے قربان۔
٭...کیا بیرون ملک پڑی دولت واپس آئے گی۔
دولت مند آگئے ہیں، دولت کبھی نہیں آئےگی۔
٭...متحدہ اپوزیشن کا چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر غور۔
کیا اس طرح پاکستان کو کشمیر مل جائے گایا آئی ایم ایف کے قرضے اتر جائیں گے۔
٭...خورشید شاہ، قومی اسمبلی میں نمبر گیم ابھی تک پی ٹی آئی کے حق میں نہیں۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)