• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبارک باد! وہ ساعتِ پرنور و ضیا بخش آپہنچی ہے جس کے انتظار میں ہم نے کئی سال کرب کے دوزخ میں گزارے ہیں ۔یعنی عمران خان وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھانے والے ہیں ۔بس چند ہی روز کے بعد وہ دن طلوع ہوگا جب عمران خان صدر ہائوس میں پہنچیں گے۔صدر ممنون حسین صدر ہائوس کے دروازے پر ان کا استقبال کریں گے ۔انہیں اندر لے کر جائیں گے ۔بٹھائیں گے ۔اس وقت تک صدر پاکستان کی عمران خان سے غیر رسمی گفتگو جاری رہے گی جب تک تمام مہمان اپنے نشستوں پر براجمان نہیں ہو جائیں گے ۔پھر صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کے ملٹری سیکرٹری آئیں گے اور دونوں شخصیات کو لے کر ہال میں جائیں گے ۔دونوں بیک وقت ہال میں داخل ہونگی ۔اس کے بعد کا سارا منظرنامہ تو پاکستانی قوم براہ راست ٹیلی وژن کی اسکرین پر دیکھ لے گی ۔مجھے خیال آرہا ہے کہ صدر ممنون سے جب پہلی بار عمران خان کی آنکھیں چار ہونگی توانہیں اُن کی وہ تقریر ضرور یاد آئے گی ۔وہ جو تقریر نہیں ایک الوہی پیش گوئی تھی ۔جیسے کوئی سادھو ، کوئی صوفی،کوئی مستقبل بین اپنی آنکھوں سے مستقبل کی دیوار پر لکھا ہوا نوشتہ پڑھ رہا ہو ۔یاد کریں وہ الفاظ۔یقیناً آپ کو یاد ہونگے مگر جن کے حافظے کمزور ہیں یا جو لوگ اسے یاد کرنے کےلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں اُن کےلئے دہرا رہا ہوں۔ ’’ پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت نے اٹھایا ہے۔آپ دیکھیں گے بہت سارے جو لوگ اطمینان سے بیٹھے ہیں، جوکہہ رہے ہم نے پکا انتظام کرلیا ہے، ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ دیکھئے گا کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے۔کچھ زیادہ کچھ نارمل اور کچھ ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہوتے ہیں کبھی آپ ان کے چہرے غور سے دیکھئے گا ۔ یہ کرپٹ لوگ ایک دن لازمی پکڑے جائیں گے۔ جنہوں نے کرپشن کے بڑے معرکے مارے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ان سے بڑا ملک کا ہمدرد کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے تو کوئی غلط کام کبھی کیا ہی نہیں۔یہ جو وقت آرہا ہے میں یقین سے آپ کو کہتا ہوں کہ پاناما لیکس قدرت کی طرف سے اٹھا ہے نجانے کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے۔میری یہ بات یاد رکھئے گا کوئی واقعہ دوماہ کے بعد ہوگا کوئی چار ماہ کے بعد ہوگا کوئی چھ ماہ کے بعد ہوگا، کوئی ایک سال کے بعد ہوگا، یہ اللہ کا نظام ہے جو چوروں، لٹیروں اور ملک دشمنوں کے خلاف متحرک ہو چکا ہے۔‘‘
ہمارے ہاں صدر کا عہدہ نسبتاً غیر اہم سمجھا جاتا ہے لیکن بعض صدور کی کہی ہوئی باتیں ممنون حسین کے الفاظ کی طرح تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں صدر اسحاق کا وہ تبصرہ کون بھول سکتا ہے جو انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کو سزائے موت دینے والے ججوں میں سے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ کے فیصلے پر کیا تھا جب نسیم حسن شاہ نے نواز حکومت بحال کی تھی ۔صدر اسحاق نے صرف یہ شعر پڑھ دیا تھا
گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغان
ہزار بادہ نا خوردہ در رگِ تاک است
یعنی جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شراب خانے کا سلسلہ ختم ہو چکا وہ جان لیں کہ ابھی تو انگوروں کی بیلوں پر ہزاروں من رس کی شکل میں شراب باقی ہے ۔
پیش گوئی کے مطابق چند روز کے بعد پھر نواز حکومت ختم ہو گئی تھی ۔صدور کا تذکرہ آ ہی گیا ہے تو اُس صدر کو بھی یاد کر لیا جائے جنہوں نے پنجاب حکومت میں ایک دن بھی ملازمت نہیں کی مگر ریٹائرمنٹ کے بعد جی او آرون کے ایک وسیع و عریض بنگلے میں بہ اطمینان ِ قلب کئی برسوں سے براجمان ہیں ۔( نواز شریف کی حکومت کو لوگ یونہی تو مغل بادشاہوں کی حکومت نہیں کہا کرتےتھے )۔میں نے ایک بار ایک دوست کے سامنے یہی بات کی اور حیرت کا اظہار کیا تو اس نے کہا’’حیرت کی بات یہ نہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شخصیت نے زندگی بھر تقسیم ِ ہند کی مخالفت کی وہی سابق صدر ’’نظریہ ِ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ کےچیئرمین بھی ہیں۔
آج کل یہ گفتگو بھی جاری ہے کہ ملک کا نیا صدر کون ہونا چاہئے یقینا ً یہ فیصلہ عمران خان نے ہی کرنا ہے اور وہی یہ فیصلہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں مجھے تو یہ سطور لکھتے ہوئے اچانک خیال آیا ہے کہ صدر ممنون کواس پیش گوئی اور اظہارحق کی جرات کی سپاس گزاری کے طور پر مسلسل اس عہدے پر کام کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے کیونکہ جب میڈیا پر تسلسل کے ساتھ پانامہ لیکس کے انہی کرداروں کوصدر کی تقریر سےمنسلک کیا گیا تو نواز شریف کی طرف سے ذاتی طور پر صدر پاکستان سےوضاحت کا مطالبہ کیا گیا مگر صدر نے مطلوبہ انداز میں وضاحت کرنے سے انکار کردیا تھا۔بہر حال قوم کو ایک بار پھر مبارک باد۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین