• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوزیہ بھٹی کہتی ہیں!
ابھی تو آسمانوں سے ضمانت اس کی اُتری تھی
نجانے اس نے کیوں سوچا محبت مر بھی سکتی ہے
اندرونی خبروں کو پورے اعتماد کے ساتھ لکھ یا بول دینا، صرف ذرائع کے ساتھ ہی مشروط نہیں ہوتا، بلکہ میں سمجھتا ہوں، اس کے لئے سالہا سال کا تجربہ انتہائی ضروری ہونے کے باوجود روحانی طور پر کسی کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری ہوتا ہے اگر والدین اور بزرگوں کی دعائیں بھی شامل حال ہو جائیں، تب جاکر ایسے مواقع فراہم ہوتے ہیں، کہ جب بندہ قلم کی نوک سے کاغذ پر لکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو پھر اس قلم کی نوک وہی لکھواتی ہے، جو اس کو نظر آرہا ہوتا ہے، اب اس دیکھی ان دیکھی ہوئی چیز کو وہ روحانی کہہ دیں، ذرائع کا دعویٰ کریں یا پھر تاریخ کا تجربہ کہتے رہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔ درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک خاندان کے چوہدری علی بخش کو اللہ تعالیٰ نے نو نومبر1962ء کو جوہرآباد ضلع سرگودھا میں ایک بیٹا ’’سہیل سرور سلطان وڑائچ‘‘ عطا فرمایا، ننھیال اور ددھیال ایک ہی تھے، دادا اور نانا سگے بھائی تھے، دادا سے زیادہ نانا کا پیارا تھا، کیونکہ نانا کی اکلوتی صاحبزادی کے اکلوتے صاحبزادہ تھے، بچپن میں بھی سنجیدہ تھے، بہادر شاہ ظفر اور علامہ اقبال کو بچپن میں ہی پسند کرتے تھے، کیونکہ ان کے نانا جان کے پسندیدہ شاعر تھے، روایت شکن سہیل وڑائچ کی جرات جاٹ فیملی کی وجہ سے شروع ہی سے مشہور ہے، کیونکہ جب اسکول میں ڈرامہ کے لئے کوئی لڑکی بننے کے لئے تیار نہیں تھا، تو انہوں نے روایتی معاشرہ سے ہٹ کر لڑکی کا کردار ادا کیا۔ بچپن میں بیڈمنٹن، لڈو، کبڈی، کرکٹ کھیلتے تھے۔ گیارہویں جماعت میں اے ٹی آئی کی طرف رجحان ہوگیا، تو جوہرآباد کے ناظم رہے۔ اذان دیتے رہنا، ان کا پرانا وطیرہ ہے، محلہ کی مسجد میں باقی نمازوں کے علاوہ فجر کی بھی اذان دیتے، تاکہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوکر اللہ کے گھر پہنچیں، ایسا کرتے بھی کیوں نا! جب والدین کی نسبت سیال شریف کی درگاہ کے بے تاج بادشاہ شیخ السلام خواجہ پیر قمر الدین سیالوی کے ساتھ اور بعد میں والدین نے ہی سہیل وڑائچ کو گولڑہ شریف کی درگاہ میں بیعت کرایا ہو، سہیل وڑائچ والدین، بزرگوں اور اساتذہ کی دعائوں کی وجہ سے ترقی کا سفر طے کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ حسد کرنے والے جو مرضی کرلیں، ان پر خواتین شروع دن سے ہی بہت اعتماد کرتی چلی آرہی ہیں، کیونکہ کالج کے دنوں میں بھی اساتذہ ٹرپ پر نہ بھیجنے والی بچیوں کے والدین کو یہ کہہ کر چپ کرا دیتے تھے، کہ فکر نہ کریں، ٹرپ انچارج سہیل وڑائچ ہیں۔ پاکستانی صحافت میں سہیل وڑائچ وہ آدمی ہیں، جو ہر طبقہ فکر میں مقبول عام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے والا بندہ ہی کتابیں لکھ سکتا ہے، کتابیں لکھنا اور پھر مناسب موقع پر مارکیٹ میں لانا کوئی ان سے سیکھے، ’’دی پارٹی اِز اووَر‘‘ کتاب کی 95فیصد باتیں درست ثابت ہو چکی ہیں۔ کتاب میں برموقع 40اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں بلھے شاہ، میاں محمد بخش، بہادر شاہ ظفر، علامہ اقبال، حبیب جالب، فیض احمد فیض (تتلہ میری جاٹ برداری سے)، میرتقی میر، منیرنیازی شامل ہیں۔ کتاب ’’پارٹی از اوور‘‘ 108کالموں کا مجموعہ ہے، وہ اہم کالمز جو زبان زد عام ہوئے تھے اور ابھی تک ہیں، ان میں نوازشریف کوئی ’’سقراط‘‘ تھوڑی ہے، خفیہ مراسلہ برائے صدر ٹرمپ، باسٹھ خان، تریسٹھ خان، بلھے شاہ ان پاکستان، ابا جی بنام نوازشریف، انتخابات ’’رومانوی‘‘ ہوئے تو، عمران کو مت روکو، بابا قائداعظم کی خدمت میں، بچہ جمورا بمقابلہ بچہ جمہورا، شہباز کرے پرواز، بیگم کلثوم بنام مریم نواز، عمران آرہا ہے۔ کتاب کی ان باتوں کو چھوڑیں، جو سچ ثابت ہو چکی ہیں، صرف یہ دیکھ لیں، کہ حلف اٹھانے کی تیاری کرنے والے کپتان کے بارے میں سہیل وڑائچ کا 11اپریل 2018کو یہ کہہ دینا کہ وزیراعظم عمران خان کے اردگرد ایسے اتحادی بھی کھڑے کردئیے جائیں گے کہ وہ کپتان پر احتسابی نظر رکھیں، تاکہ وہ اتنے آزادنہ ہوجائیں کہ مرضی کے فیصلے کرنے شروع کردیں، لیکن آج سہیل وڑائچ کی لکھی ہوئی یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے۔
کتاب میں تین سال سے جاری سیاسی تلاطم کو کبھی ادبی، کبھی فلاسفی، کبھی چوہدری، کبھی عسکری، کبھی خلائی، کبھی زمینی، کبھی فریبی، کبھی بھائی، کبھی کہانی، کبھی منادی، کبھی معشوق، کبھی محبوب، کبھی رومانوی، کبھی انقلابی، کبھی سادگی، کبھی عاجزی، کبھی نثری، کبھی شاعری، کبھی عوامی، کبھی شہبازی، کبھی پرویزی، کبھی آئینی، کبھی قانونی، کبھی اخلاقی، کبھی مکالمی، کبھی اشاروں، کبھی کنایوں، کبھی ڈاکیا، کبھی دیو، کبھی باسٹھ، کبھی تریسٹھ، کبھی سلسلہ توکلی، کبھی مجلس مشاورتی، کبھی تالیوں، کبھی قہقہوں، کبھی محمد بخش، کبھی بلھے شاہ، کبھی جالب، کبھی بھولے اور سیانے کی طرز پر، کبھی خفا کے انداز میں، کبھی جمہوریت کی خاطر تو کبھی ملک کی خاطر، کبھی چیونٹی، حتیٰ کے کبھی پہاڑ بن کر جتنا حالات کے بارے محمد نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو سہیل وڑائچ نے سمجھایا اور بتایا کوئی دوسرا ایسا نہیں کرسکا۔ سہیل وڑائچ خود تو کہتے ہیں کہ میں طبیعتاً احتیاط پسند ہوں، لیکن میں یہ صرف کتاب پڑھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ سالہا سال کے تعلق کو سامنے رکھ کر یہ کہوں گاکہ وہ روحانیت کی طرف مائل ہونے کی بناء پر لوگوں کا دل نہیں توڑتے، بلکہ دوسرے کے دل کو آگاہ ضرور کردیتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی دوسروں کی پگڑی اُچھالتے ہیں۔ سہیل وڑائچ کی دھیمی، ٹھنڈی اور خوش گوار الفاظ کی بھرمار سے اور تو اور مفتی منیب الرحمن جیسے جید عالم دین شرح متین اور عمر رسیدہ بزرگ نہیں بچ پائے، تو ہم کس باغ کی مولی ہیں، مفتی صاحب کہتے ہیں کہ وہ ٹھنڈے مزاج، متانت، وقار اور ٹھہرائو میں بولنے والے صحافی ہیں۔ سہیل وڑائچ یاروں کے یار ہیں، دوستوں کے حلقے میں ہمیشہ اضافہ کرتے رہتے ہیں، جس طرح خواتین گھروں کو سجانے کی ماہر ہوتی ہیں، ویسے ہی سہیل وڑائچ بھی مختلف دوستوں کو دل کے مختلف خانوں میں جگہ دیتے ہیں، دل سے نکالنے کے قائل نہیں، بلکہ دل کے خانوں کی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ جمہوریت سے بھی ان کی پرانی یاری ہے، میرے خیال میں اسی لئے وہ اپنے آپ کو خطروں کی دلدل میں پھنسا کر مسلسل خطرناک اور حساس موضوعات پر لکھتے ہی چلے جارہے ہیں، میری دعا ہے، وہ لکھتے ہی رہیں، تاکہ قوم کو الفاظ کی بازگشت سننے کو ملتی رہے، سہیل وڑائچ نے سیانے حکیموں کی اس بات کو مضبوطی سے پلے باندھا ہوا ہے کہ دماغ کو ہمیشہ ٹھنڈا اور پائوں کو گرم رکھو، کتاب کا انتساب بھی جس شخصیت کے نام کیا ہے، اس سے بھی علم ہوتا ہے کہ واقعتاً سہیل وڑائچ چوہدری فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے الکنایۃ ابلغ من التصریح سے کام لیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں تاریخ بنانے کی بجائے تاریخ پڑھنے کو بھی ترجیح دی ہے۔ یہ سہیل وڑائچ ہی ہیں، جن کو دیکھ کر بے نظیر بھٹو بے ساختہ دی رائزنگ اسٹار آف جرنلزم (دنیائے صحافت کا ابھرتا ہوا ستارہ) کہنے پر مجبور ہوجاتی تھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین