• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن2018کے بعد اب مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومت سازی کامرحلہ جاری ہے۔اگرچہ تحریک انصاف مرکز،خیبرپختونخوااور پنجاب میں نمبر گیمزمیں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔تاہم حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانے میں مکمل طورپر ناکام رہا ہے۔غیر جانبدار ادارے فافن کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے35حلقوں میں مسترد شدہ ووٹ جیت کے مارجن سے کہیں زیادہ تھے۔ واقفان حال کاکہناہے کہ پنجاب،خیبرپختونخوا،کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان میں 75سے زائد قومی اسمبلی کے حلقوں میں نتائج کو تبدیل کیا گیا۔ گزشتہ مئی 2013کے انتخابات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سنگین دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور چار حلقوں کوکھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔عمران خان نے اُس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی پربھی یہ الزام لگایا تھاکہ انہوں نے ملی بھگت سے 35نشستوں پر مسلم لیگ(ن)کو جتوایا ہے۔مقام افسوس یہ ہے کہ اب2018کے الیکشن پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔یوں محسوس ہوتاہے کہ حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ کر تحریک انصاف کے اقتدار کی راہ ہموار کی گئی ہے۔متحدہ مجلس عمل،پیپلزپارٹی،مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بدترین دھاندلی کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ ایک خوش آئند امر ہے۔الیکشن سے قبل تبدیل کی گئی حلقہ بندیوں پر بھی سیاسی جماعتوں کو شدید تشویش تھی۔انتخابی نتائج سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ حلقہ بندیوں کو تبدیل کرکے من پسند امیدواروں کو جتوایا گیا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے سربراہ مسلم لیگ(ن) پرماضی میں یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ امپائروں کے ساتھ مل کر اقتدار میں آتی رہی ہے۔اب یہی الزام تحریک انصاف پر لگایا جارہا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں الیکشن کے نتائج کبھی اتنی تاخیر سے نہیں آئے۔25جولائی کو انتخابات کے تین روز بعد تک نتائج کا سلسلہ جاری رہا۔ دلچسپ امریہ ہے کہ 25جولائی کی رات10:45پر سب سے پہلا مکمل نتیجہ93,000ووٹوں کے ساتھ ملتان میں شاہ محمود قریشی کی جیت کا سامنے آیا۔حالانکہ کراچی اور لاہور کے کئی حلقوں کے نتیجے تین روزبعد سنائے گئے۔اُن نتائج کو کیوں روکا گیا؟اور آرٹی ایس کانظام کیوں فلاپ ہوا؟2018کے انتخابات کے دورا ن الیکشن کمیشن کاکردار مشکوک ہوگیا ہے۔اب وہ جتنی مرضی وضاحتیں کرے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کے لئے 20ارب روپے کا بجٹ تھا اور وسیع اختیارات تھے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ اُس نے شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کے لیے اپنے اختیارات کو استعمال ہی نہیں کیا۔عمران خان نے کامیابی کے بعد ویڈیو لنک پر قوم سے خطاب میں کہاتھا کہ جن حلقوں میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں ان حلقوں کو وہ دوبارہ کھولیں گے مگر چند حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کے بعد یہ عمل نجانے کیوں بند کردیا گیا؟۔چونکہ چار پانچ حلقوں میں دوبارہ گنتی کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار ہار گئے تھے اس لیے الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کی باقی ماندہ درخواستوں کو مسترد کردیا۔یہ صاف نظر آرہا ہے کہ الیکشن کس قدر منصفانہ تھے؟یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مرکز،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف حکومت بنارہی ہے اور بلوچستان میں اس کی اتحادی حکومت بننے کے امکانات ہیں۔البتہ سندھ وہ واحد صوبہ ہوگاجہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی۔واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت توبنالے گی لیکن اُسے چونکہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کی طرح بھاری مینڈیٹ نہیں دیاگیا۔اس لیے اب تحریک انصاف کو مرکزاور پنجاب میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقتدار پھولوں کی سیج نہیںبلکہ کانٹوں کاہار ہوتا ہے۔ اب تحریک انصاف کی نئی بننے والی حکومت کو عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ڈلیور کرنا پڑے گا۔اگر عمران خان اپنے پہلے 100دن کے پروگرام کے مطابق عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف نہ دے سکے اور محض سابق مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی طرح نمائشی اقدامات ہی کرتے رہے توتبدیلی اور ’’نیاپاکستان‘‘ بنانے والا فلسفہ مذاق بن جائے گا۔
الیکشن 2018کاایک روشن پہلویہ ہے کہ ملک سے دوپارٹی سسٹم ٹوٹتادکھائی دے رہا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارتی گزشتہ چار دہائیوں سے چہرے بدل کر حکومتیں کررہی تھیں۔ان دونوں جماعتوں نے عوام کو سبز باغ دکھائے اور ان کی تقدیر بدلنے کے دعوے کیے لیکن آج وہ تمام دعوے اور وعدے جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔قوم باریاں لینے والی دونوں جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے تنگ آچکے ہیں۔عام انتخابات میں تحریک انصاف کو پذیرائی ملنے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ اب جماعت اسلامی اور دوسری جماعتیں جن پر کرپشن کاکوئی داغ نہیں ہے ان کے لیے بھی آئندہ مواقع موجود ہیں۔دو جماعتی سسٹم ٹوٹنے سے متحدہ مجلس عمل اور اس میں شامل جماعتوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔اب چونکہ متحدہ مجلس عمل بن چکی ہے اور اسے پانچ سال تک یونہی چلنا ہے۔الیکشن2023میں متحدہ مجلس عمل یاجماعت اسلامی کے لیے ایک اچھاموقع ضرورموجود ہوگا کہ وہ آئندہ بلدیاتی انتخابات اور 2023کے عام انتخابات کی ابھی سے بہترپلاننگ کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ملکی سیاست میں اُس کا کردار صاف اور شفاف رہاہے۔مختلف ادوار میں پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات میں جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے رہے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے اور ان کی دیانت وامانت کی زمانہ گواہی دیتاہے۔الیکشن 2018میں کراچی سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری سے جماعت اسلامی کے ا میدوار سید عبدالرشید نے کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔لیاری پیپلزپارٹی کالاڑکانہ جیساگڑھ ہے۔وہاں اُسے شکست دینا ایسے ہے جیسے اُسے لاڑکانہ سے ہرایا گیا ہے۔سید عبدالرشید اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سابق ناظم اعلیٰ ہیں۔انہوں نے لیاری میں غریب عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کردیا ۔یہی وجہ ہے کہ لیاری کے عوام نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر بلاول بھٹو کو مستردکردیا اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بھی جماعت اسلامی کے لیاری میں اچھی شہرت رکھنے والے سیدعبدالرشید کو اپنے سرآنکھوں پر بٹھایا۔ذوالفقار علی بھٹونے کہا تھا کہ جس دن پیپلزپارٹی لیاری سے سیٹ ہارگئی یہ سمجھنا کہ پیپلزپارٹی ختم ہوگئی ہے۔اب پیپلزپارٹی کو یہ سوچنا ہے کہ آخر اُسے لیاری میںکیوں شکست ہوئی ہے؟۔سید عبدالرشید نے جس طرح لیاری کے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے ایسے لگتاہے کہ وہ اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرلیں گے۔سید عبدالرشید کی کراچی سے پیپلزپارٹی کے گڑھ سے کامیابی عوامی خدمت کی ایک بہترین مثال بن کر سامنے آئی ہے۔اگر سیاسی جماعتوں کے امیدوار سید عبدالرشید کی طرح محنت اور لگن سے کام کریں اور عوام کے ساتھ اپنے حلقوں میں گھل مل جائیں،ان کے دکھ درد دور کریں توپھرمال ودولت ناکام ہوجائے گی اور شرافت ودیانت کو ووٹ ملیں گے۔حالیہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن پر تحریک انصاف کے سواتمام سیاسی جماعتوں نے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ اب ان الزامات کے بعد چیف الیکشن کمشنراور چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کو فوری مستعفی ہوجانا چاہئے۔ اب انہیں مزید اپنے عہدوں پر نہیں رہنا چاہئے۔ آئندہ بلدیاتی الیکشن اور پھر2023کے انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے آزاد الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لانا چاہئے۔تمام پارلیمانی جماعتوں کو اس حوالے سے اپناکردار اداکرنا چاہئے۔ اگر دھاندلی سے پاک انتخابات کرانے ہیں تو الیکشن کمیشن کو ہر قسم کے دبائو سے آزاد کرنا ہوگا۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف مرکز، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں برسراقتدار آکر اپنے وعدوں کے مطابق عوام کو ریلیف دے پائے گی یا تبدیلی کا نعرہ ناکام ہوگا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین