مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب ترین وزیراعظم کی پرشکوہ عمارت اپنے محل وقوع اور طرز تعمیر کی وجہ سے جاذ ب نظر ہے۔ جہا ںمختلف سیاسی شخصیات الیکشن میں کامیابی کے بعد اسے اپنا مسکن بناتے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں نہ صرف وزیراعظم ان کی فیملی بلکہ وزیراعظم کے ساتھ کام کرنے والا اعلیٰ وعام عملہ بھی یہاں موجودہوتا ہے۔ملازمین کے لیے وزیراعظم ہائوس میں رہائشی گھر بھی موجود ہیں تاکہ خدمت کیلئے آنے جانے میں انہیں دقت نہ ہو۔وزیراعظم ہائوس کی سیکورٹی کے لیے فوج سمیت تمام سیکورٹی اداروں کے لوگ اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے سالانہ اربوں روپے کے اخراجات ہیں ۔حالیہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کاحلف اٹھانے کے لیے وزیراعظم ہائوس میں رہنے سے انکارکردیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس عالی شان عمارت میں نہ رہنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر اس کے اثرات تمام گورنر ہائوسز،وزرائے اعلیٰ ہائوسز تک بھی جائے اوراس سے زیادہ یہ کہ ہمارے سرکاری اداروں کے سربراہان بھی کسی وزیراعظم، گورنر یا وزیراعلیٰ کے ٹھاٹ باٹھ سے کم زندگی نہیںگزارتے۔ بڑے بڑے شہروں سے لے کرچھوٹے شہروں تک جہاں ڈپٹی کمشنر اعلیٰ پولیس افسران اور ججز یا دیگر سرکاری افسران رہائش پذیر ہیں وہاں کے شان بھی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کئی کئی ایکڑز اور کنالوں پر پھیلے ہوئے گھروں میں سرکاری ملازمین اور گاڑیوں کی قطاریں ہوتی ہیں ۔عمران خان اگر وزیراعظم ہائوس کو چھوڑکرمنسٹرز انکلیو میں رہائش اختیار کرناچاہتے ہیں تو ان سارے افسران جو ملکی صدور کے ٹھاٹ سے رہتے ہیں سب کو لگام دینے کی ضرورت ہے ورنہ ایک وزیراعظم ہائوس یا گورنر ہائوسز خالی کرانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ عمران خان اگر یہ معلوم کرلیں کہ سرکاری اداروں کے افسران کی گاڑیوں،عملے اور ریفریشمنٹ یا چائے، کافی اور پلیٹو ں میں سجے کئی اقسام کے بسکٹو ں کی شکل میں انٹرٹینمنٹ کے اخراجات کتنے ہیں تو ہوش اڑ جائیں گے۔افسران سے ان کا بیسٹ لینے کے لئے انہیںسہولیات ضرور ملنی چاہئیں۔چاہے وہ گاڑی کی شکل میں ہو یا ملازمین کی شکل میں لیکن یہ نہیں ہوناچاہیے کہ لوٹ مار کا مال سمجھاجائے اور وسائل بے دریغ استعمال کئے جائیں، یہ سب اچھے اقدامات ہیں،اس کے سا تھ ساتھ عوا م کو بھی یہ با ور کرا نے کی ضرورت ہے کہ ہم سا لا نہ تقر یباً دو لا کھ ٹن پتی کی چا ئے ڈکا ر جا تے ہیں جس پر تقریباً 12ارب روپے کا قیمتی زر مبا دلہ خر چ ہو تا ہے۔اس وقت ملک میں ایک اور روا یت چل نکلی ہے، مختلف شہر و ں کے چیمبر ز اپنے ایو ا ر ڈ شو ز بیر ون مما لک منعقد کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے جہا زو ں کے جہاز بھر کر ان شوز میں جا رہے ہیں ،ضرور جا ئیں لیکن ان حا لا ت میں تھو ڑا ملک کا خیا ل کر لیں۔کچھ چیزو ں کے لئے ضر و ری نہیں کہ حکو مت اعلان کرے یا پا پند ی لگا ئے،بلکہ بطو ر قوم ہمیں خو د ادراک کرنا ہو گا ۔ہما رے بڑے شہر گند گی کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہے ہیں،جہا ں حکو مت کو گندگی کے ڈھیرٹھکا نے لگانے ہیں وہا ں عوام کو بھی یہ سکھا نا ہے کہ گندگی کو تلف کر نے اور پھیلا نے میں فر ق رکھنا ہو گا ۔ غر بت اور تعلیم ایک بڑا مسئلہ ہے ، غر بت کا جن اور تعلیم کی کمی دو نو ں خطر نا ک ہیں ۔کم آ مدنی والے لو گو ں کو صحت ، تعلیم اور پیٹ کی آگ بجا نے کے لئے فو ری اقدا ما ت کی ضرو رت ہے۔ ۔ہسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے او پی ڈی صبح شام کھلی ہونی چاہیے وہ صارفین جن کی ماہانہ آمدنی میں دس سے بیس ہزار ہے ان کی بجلی اورگیس کے بل کم کرنے کی پالیسی بناناچاہیے لیکن سب سے اہم بات یوتھ کو نہ صرف ملازمتیں ملنا ضروری ہیں بلکہ ایک نئے پاکستان کے لئے ان کو ایک بہترین نظم وضبط میں لانا اورکمیونٹی سروس کی سپرٹ کو اجاگر کرنا ہے۔ کیونکہ ہم ہر جگہ ریوڑ کی طرح موو کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ چلنا ہو، ڈرائیونگ،بس گاڑی یا ٹرین میں سوار ہونا ہو،کھانے کی دعوت ہو ہمارا عمل کسی طرح بھی جانوروں سے کم نہیں ہے۔نیا پاکستان بنانا ہے تو قوم کی تربیت سب سے ضروری امر ہے۔ کیو نکہ اس سے آدھے مسا ئل حل ہو جائیں گے۔