• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سائنس کی ترقی اور انسانی اقدار کے زوال کی بنا پر قافلہ انسانی آج جس مقام تک آ پہنچا ہے وہ ہلاکت و بربادی، نیوکلیائی ہیبت، غربت اور امارت کا تاریخی فرق، موسموں کی تبدیلیاں اور فطرت سے محاذ آرائی کا ایک ایسا مقام ہے جو سفر زندگی میں انسان کو اس سے قبل کبھی پیش نہ آیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام جو جمالیات سے دور آخری سانسیں لیتا ہوا اگر منہدم ہو گیا تو کرہٴ ارض کو بچانے کیلئے دنیا میں کسی نعم البدل نظام کی تیاری نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بھی طے ہے کہ ریاضی کے بحران کے اس دور میں حسن و صداقت اور انصاف کے نئے نصاب کے بغیر انسان کبھی امن و سلامتی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ جہالت، طبقاتی تعلیم کے زنگ آلودہ نصاب کے ذریعے اس طرح پھیلائی جا رہی ہے کہ بھوکا جدید ہتھیاروں کو دیکھ کر رقص کرتا ہے حالانکہ اس کی بیٹی ہیضے سے چل بسی ہے لیکن اس کا علاج نہ کرا سکا۔ ادھر عالمی ساہوکار، ملٹی نیشنلز کمپنیوں کی ارب پتی بیورو کریسی اور دنیا کے اسلحہ و منشیات فروش اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ خلائی اسٹیشن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور زمین کی طرح آسمان بھی بانٹ لیں گے۔امریکی دانشوروں نوم چومسکی، ناؤمی کلائن اور جوزف اسٹگلٹز کا موٴقف ہے کہ دنیا میں نا برابری کا یہ عالم ہے کہ ایک فیصد ساہوکاروں کے پاس73فیصد دنیا کی دولت جمع ہو گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ اقتصادیات نے کنزیومرازم، بینکوں کے قرضے اور کریڈٹ کارڈز کا استحصال، اسٹاک مارکیٹ کے جوئے نے انسان پر کرنسی کی بالادستی قائم کر دی ہے اور کرنسی جو کاغذ کا ٹکڑا جس کی پشت پر کچھ نہیں ہے، اس سے منڈی میں جو چاہو خریدا جا سکتا ہے۔ سائنس دان بھی اور مزدور بھی، اسی لئے سائنس دان حتمی علاج دریافت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ سرمایہ داروں کے اسیر ہیں۔ اگر علاج حتمی ہو گیا تو منافع کم ہو جائے گا اور جرائم کم ہو گئے تو فرانزک آلات اور اسلحہ کیسے فروخت ہو گا؟ جنگوں کو فنانس کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کے لئے زندہ آدمی سے مرا ہوا آدمی زیادہ قیمتی ہے۔ اس ہوس گیری کے بارے میں معروف تجزیہ نگار فرید ذکریا نے 2008ء میں عالمی مالیاتی نظام کے انہدام کے موقع پر نیوز ویک کے سر ورق پہ سرخی جمائی” ہوس کی قیمت “اور اس ہوس کی بنیاد منافع خوری بتائی جو تجارت کی بالادستی، ڈالرائزیشن، قرضے اور سود کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ عالمی بینک کے سابق چیف اکنامسٹ اور نوبل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز اپنی تازہ کتاب ”نابرابری کی قیمت“ میں لکھتے ہیں کہ ”موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ریاست اور منڈی کے درمیان توازن قائم کرنے کیلئے امریکہ کو زیادہ سوشلزم اور کم کیپٹلزم کی ضرورت ہے۔ کرنسی، کرنسی کے عوض فروخت ہوتی ہے جبکہ یہ صرف تبادلے کیلئے دریافت کی گئی۔ طاقتور ممالک کرنسی کی یلغار سے کسی بھی پسماندہ ملک کی کرنسی تباہ کر سکتے ہیں۔دوسری جانب کنزیومرازم، سٹہ بازی اور منی مارکیٹ میں کرنسی، کرنسی کے کھیل اور برآمد، برآمد کی دوڑ نے چین کو بالادست بنا دیا ہے۔ چین نے ساورن ریزرو ڈالر کی صورت میں اس قدر جمع کر لئے ہیں کہ اسے یہ خدشہ بجا طور پر لاحق ہو گیا ہے کہ ڈالر کی موت ان کی معیشت کی موت بن جائے گی لہٰذا وہ سونا اور دیگر کموڈٹیز خریدنے میں مصروف عمل ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں جو پیدائشی خرابیاں ہیں (جن کے بارے میں بعد میں لکھا جائے گا) ان کا تدارک کسی ذی فہم کے پاس نہیں ہے۔ سوائے ”سچویشنل سائنس سوشلزم“ کے نفاذ کے کہ جس کا ذکر سوشلزم دشمن جوزف اسٹگلٹز نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ امریکہ کے موجودہ بحران کے بارے میں ماہرین نے بار بار متنبہ کیا ہے کہ اقتصادی اور فوجی مہم جوئی امریکہ نے جو جاری رکھی ہوئی ہے اس عمل کے ردّعمل کے طور پر مکافات عمل شروع ہو چکا ہے اور یہ بھی کہا کہ امریکہ واحد سپر پاور ہونے کے ناتے عالمی غلبے کیلئے طاقت کے جس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔نام نہاد جمہوریت کے بارے میں بھی مغرب کے چوٹی کے تجزیہ نگار اسے سرمایہ دارانہ ہتھیار سے جوڑ رہے ہیں۔ معاشی گلوبلائزیشن کے پرجوش حامی بل کلنٹن، میڈیلین البرائٹ، ٹونی بلیئر، صدر اوباما، نیویارک ٹائمز کے فارن پالیسی کے کالم نگار تھامس فریڈمین اور عالمی تجارتی تنظیم غیر منتخب بیورو کریسی سرد جنگ کی غلطیوں کو دہراتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کے تاریخی سکّے کے دو رخ ہیں۔ ایک سرمایہ داری اور دوسری جمہوریت، تاہم اس جھوٹ کو مسترد کرنے کیلئے مارکسٹ یا انقلابی ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں رخ سفید جھوٹ کا آمیزہ ہے۔ اس کی مثال لبرل معیشت دان ”وان لیسٹر تھرو“ کی دی جا سکتی ہے جو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”جمہوریت اور سرمایہ داری منصفانہ طاقت و دولت کی تقسیم کے تناظر میں دو یکسر مختلف نظریات ہیں۔ جمہوریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ سیاسی طاقت کی تقسیم مکمل طور پر مساوی ہو کیونکہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر جمہوری نمائندے منتخب ہوتے ہیں جبکہ سرمایہ داری میں ڈارون کے نظریے کے مطابق بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی ہضم کر لیتی ہے۔ یہ ایک بے لچک نظام کی شکل ہے جو صرف غلامی ہی کے لئے موزوں ہے، اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں“ یہ اس قدر مدلل موٴقف ہے کہ جس کی کوئی ذی عقل انسان مخالفت نہیں کر سکتا۔ عالمی معیشت کی زوال پذیری اسی تضاد کی وجہ سے دیوالیہ صورت اختیار کر رہی ہے۔ یونان جیسے بیمار ملک کو آئی ایم ایف کے 170/ارب ڈالر کے نسخے نے مزید بیمار کر دیا ہے اور یورو زون اس کی لپیٹ میں ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو اب قرضوں، سود اور سٹہ بازی کی شماریات، اقتصادیات سے جان چھڑا کر قدرتی وسائل اور انسانی سرمائے کے استعمال کی طرف دھیان دینا ہو گا۔ ورنہ ابدی غلامی مقدر بن جائے گی، اسی لئے موجودہ حالات سے خوف کھاتے ہوئے جوزف اسٹگلٹز اپنی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں:”میں آج تاریک تصویر پینٹ کر رہا ہوں جو بہت تاریک ہے، اس سے بچنے کیلئے نعم البدل فریم ورک کیلئے منڈی اور ریاست کے کنٹرول میں توازن قائم کرنا ہو گا۔ میں یہ جدید نظریہ تاریخی ثبوت کے ساتھ پیش کر رہا ہوں جس کے تحت حکومت کو آمدنیوں اور قوت خرید کی ازسرنو تشکیل کرنی ہو گی۔ دولت اور پیداوار جس رفتار سے بڑھ رہی ہے عوام اسی رفتار سے پسماندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں اسلئے دنیا کے حکمرانوں اور دانشوروں کو اشیائے صرف، خوراک، پانی، صاف ہوا،ماحولیات، ٹرانسپورٹیشن، ہاؤسنگ، تعلیم، صحت اور ریٹائرمنٹ میں سنجیدہ تبدیلیاں لانی ہوں گی اور امیر دنیا کے امیروں اور غریب دنیا کی اشرافیہ کو اپنا لائف اسٹائل تبدیل کرنا ہو گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ آج دنیا کو زیادہ سوشلزم اور کم کیپٹلزم کی اشد ضرورت ہے“ آج مغرب کے دانشور جانتے ہیں کہ چند طبقوں کیلئے جنت قائم کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا جہنم بن جائے گی اس لئے مذکورہ دانشور عالم برزخ کیلئے کوئی راہ تلاش کر رہے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان جو جمود کے حامی ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ سرمایہ دارانہ ترقی کتنی بے رحم ہے، وہ پسماندگی کو نگل رہی ہے اور ان کی باری قریب ہے۔
تازہ ترین