• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندازے کے مطابق، جیسا کہ پہلے کسی کالم میں عرض کر چکا ہوں، اگست کے ابتدائی حصے میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا متعین نقشہ سامنے آ چکا ہو گا۔ ہو سکتا ہے پانچوں حکومتیں تشکیل پا چکی ہوں۔
ماحول میں اس تاریخی موقع پر ماضی کی داستانیں، حال کے واقعات اور مستقبل کی پیش گوئیوں سمیت دنیا بھر کے موضوعات زیر بحث ہیں۔ یقیناً ان میں نہایت مفید مباحث تلاش کئے جا سکتے ہیں مثلاً پاکستان میں منتخب وزیر اعظم کا مسئلہ!
ہمارے کالم نگار سینئر رپورٹر اعزاز سید نے اپنے پچھلے کالم میں ایک واقعہ کوٹ کیا جس کا اسی موضوع کے تاریخی پس منظر سے تعلق تھا یعنی جمالی صاحب کو ’’قابو‘‘ میں رکھنے کے لئے انہیں صرف ایک ووٹ کی اکثریت تک محدود رکھنا کیونکہ ناگزیر تھا؟
ہمارے نزدیک پاکستان جیسے ملک میں ایسے قصے ایسے ملک کی تاریخ کا ناگزیر حصہ ہوتے ہیں۔ ہمیں اس تناظر میں تھوڑا سا تفصیل میں جانا چاہئے جس سے ہمیں پاکستان میں جمہوری ارتقا کے متعلق سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ’’انتخابی دھاندلی‘‘ کے عنوان سے ایک تحریک چلائی گئی، یہ ’’تحریک اسلام، امریکہ، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عالم اسلام‘‘ کے بے حد و حساب پیچیدہ اور متعدد جہتوں پر مبنی حالات و واقعات پر گفتگو کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔اصغر خان اس تحریک کے ’’سالار کرداروں‘‘ میں سے تھے۔ اس تحریک کے تناظر میں ایک ایسے ناول کی تخلیق کی جا سکتی ہے جس کا ٹائٹل عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کی مناسبت سے ’’اداس لوگ‘‘ رکھا جا سکتا ہے۔
1981ء میں پاکستان کا حکمران ضیاء الحق تھا۔ اُن کی فکر نے معاشرے میں موجود عجیب و غریب سماجی رویوں کو مزید طاقت اور جلا بخشی، عوام کی ان پڑھ اور روایتی تعلیم یافتہ اکثریت نے ریاست اور زندگی کے معاملات میں وقت کے حکمران کی فکرکے باعث اپنی غیر فطری سوچوں اور اپروچ کے لئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار باوقار منطقی جواز تلاش کر لیا۔
وہ پاکستانیوں کی قومی زندگی میں نظریاتی لحاظ سے تہی دامن ایک ایسا حکمران بھی تھا جس کے دور میں سیاسی اختلاف کے باعث وطن سے ہجرت کے کلچر نے اجتماعی شکل اختیار کی، اس کلچر کے واقعات اور تفصیلات میں جانے کا یہ محل نہیں شاید اس تفصیل کے لئے چند سو صفحات پر مشتمل کتاب کی ضرورت ہے۔
آئوٹ لائن کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس آسیب نے ہجرت کنندگان اور ہجرت نہ کرنے والے افراد، دونوں طبقوں کو زندگی کے متعلق ڈپریشن کی اتھاہ گہرائیوں میں اتار دیا، روشن خیالی اور فطرت کے پرستار ایسے ہی زندگی سے قریب قریب مایوس ہو گئے۔
ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو پھانسی دے کر جمہوریت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی۔ ووٹ کی حرمت، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل کی جدوجہد پاکستانی عوام کا، انا کی نفی اور توہین کرنا غیر جمہوری قوتوں کا خاصا ہے۔ ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد 1988 تا 1999ء میں بھی پاکستان کے منتخب سیاسی حکمرانوں کے ساتھ قیامت خیز واقعات ہوئے۔ بے نظیر شہید اور نواز شریف کو دو دو بار بزور طاقت اور سازش منتخب حکومت سے وقت کی آئینی مدت سے پہلے فارغ کیا گیا، پھر جنرل (ر) مشرف صاحب تشریف لے آئے۔
جمہوری جدوجہد ان تمام جان لیوا مراحل کے سمندر میں تیرتی رہی، اس نے میدان حیات میں اپنا سر نیچا کرنے سے انکار کر دیا، نواز شریف زبردستی کی جلاوطنی کے بعد پاکستان تشریف لا کر تیسری بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے، پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو منتخب اقتدار ملا اور 2018ء میں ووٹ کے اصول کی بنیاد پر عمران خان وزیر اعظم پاکستان بننے جا رہے ہیں، تحریک انصاف پاکستان کی منتخب حکمران جماعت ہو گی۔
میں نے یہ کہانی یا تفصیلات صرف اصولی آئوٹ لائن کے طور پر پیش کی ہیں چونکہ کسی حد تک موجودہ ہنگامہ خیز سیاسی معاملات میں ناگزیر پس منظر بیان کرنا ضروری تھا چنانچہ ہمارے برخوردار اعزاز سید نے جو تاریخ رقم کی وہ اپنی جگہ درست ہے۔ آپ اسے مقدر کا لکھا نہ بھی سمجھیں اور اسے پاکستانی قوم کی بدقسمتی پر محمول کریں تب بھی آپ کے لئے واحد راستہ، ان سخت رویوں کی موجودگی میں بھی، انتخابات کا مسلسل انعقاد ہے جو ہر پانچ سال بعد آئینی مدت کے مطابق مطلوب ہوں (خاکسار کے نزدیک موجودہ منتخب ارکان کو پارلیمنٹ کی مدت چار سال کر دینی چاہئے)۔ انتخابات کے تسلسل کے ساتھ منعقد ہونے سے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی آمریتوں کے ابواب بند ہونا شروع ہو جائیں گے، موروثی سیاست کی بنیادوں کے انہدام کا آغاز ہو جائے گا۔
بین الاقوامی حالات، خطے کے تقاضے اور خود پاکستانی عوام کا آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل پر قائم رہنا اور ہر طرح کی حوصلہ شکنیوں کے باوجود دس دس گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنا، غیر جمہوری عوامل کے تمام فلسفوں اور حربوں کے لئے موت کا پیغام ہے۔ بس ہمیں اسی راہ پر چلتے ہوئے صبر اور انتظار کی راہوں کو مضبوطی سے پکڑنا ہو گا۔
2018ء میں انتخابات ہارنے والوں نے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، جواب میں الیکشن کمیشن کے ترجمان نے جو کہا وہ شاید پہلی بار منطقی جرأت اور اصول کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’الیکشن شفاف ہیں، ہارنے والے عوامی رائے کا احترام کریں، شکایات دور ہوں گی استعفیٰ نہیں دیں گے، ملک میں انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے، تمام جماعتوں کو لیول پلیسنگ فیلڈ مہیا کی، فافن، یورپی مبصرین نے الیکشن کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دیا۔ یہ قوم کی جمہوری فتح ہے۔ اے پی سی کا مطالبہ مسترد کرتے ہیں۔ 30ہزار مبصرین نے الیکشن عمل کا معائنہ کیا، ٹرن آئوٹ 52فیصد رہا۔‘‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ردعمل کو ہم نے منطقی جرأت اور اصول کا نمائندہ قرار دیا، یہ رائے متعلقہ ادارے کے اعتماد اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھے جانے کی بنا پر عمل میں آئی ہے۔ ہمیں اپنے قومی اداروں کو کالعدم کر دیئے جانے کے انتہا پسندانہ مطالبوں کے بجائے اعتدال کا راستہ اپنانا ہو گا، اس لئے کہ ’’جمہوریت کی آزادی کا واحد راستہ صبر اور انتظار ہے۔ ‘‘
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور وٹس ایپ رائے دیں۔00923004647998)

تازہ ترین