• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر اوباما نے اپنے پہلے چار سالہ دورِ اقتدار میں اہل پاکستان کو سیکڑوں ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ بچوں، عورتوں اور مردوں پر مشتمل ہزاروں ہم وطنوں کی جلی ہوئی لاشوں کے تحفے دیئے۔ ان کا یہ مشغل افغانستان، عراق، یمن اور صومالیہ وغیرہ میں بھی جاری رہا۔ خود معتبر امریکی ذرائع ابلاغ خصوصاً نیویارک ٹائمزمیں29مئی کو شائع ہونے والی ٹھوس شواہد پر مبنی رپورٹ کے مطابق ہر منگل کو وائٹ ہاوٴس کے ایک خصوصی اجلاس میں وہ دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کے ایسے مخالفین کو نامزد کرتے رہے جنہیں ان کے نزدیک موت کے گھاٹ اتاردیا جانا امریکہ کے مفادکا تقاضا تھا۔ اس فہرست میں امریکی شہری بھی شامل رہے اور قتل بھی کئے گئے۔ پاکستان میں ڈرون حملے بظاہر امریکہ مخالف القاعدہ قیادت کا صفایا کرنے کے لئے شروع کئے گئے تھے لیکن ریکارڈ پر موجود مستند اعداد وشمار سے جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس خونی کھیل میں 98فی صد عام پاکستانی شہری نشانہ بن رہے ہیں تو امریکی صدر نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے، نیویارک ٹائمز کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق، ہدایت جاری کی کہ مرنے والوں میں جنگ کے قابل تمام افراد کو دہشت گرد ظاہر کیا جائے۔ یہ ماورائے عدالت قتل عام، خواہ اس میں امریکہ کے مطلوب افراد ہی مارے جائیں ، انصاف کے مسلمہ اصولوں، بین الاقوامی قانون اور خود امریکی آئین اور قوانین کی رو سے کتنا شدید جرم اور انسانی حقوق کی کیسی سنگین خلاف ورزی ہے، اس حوالے سے خود صدر اوباما کے ملک میں انصاف پسند لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے رہے ، اس روش کے منفی اثرات سے انہیں خبردار کیا جاتا رہا لیکن انہوں نے کسی تنبیہ اور نصیحت پر کان دھرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اپنے دوسرے دور میں صدر اوباما کیا کرنا چاہتے ہیں، اسے بھی انہوں نے پوشیدہ نہیں رکھا ۔ اپنی انتخابی فتح کے بعد پہلے خطاب میں اگرچہ انہوں نے جنگ کی دہائی ختم ہونے کی نوید سنائی ہے مگر انتخابات سے چند روز پہلے امریکی ذرائع ابلاغ میں مستقبل کے متوقع دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ان کا ایک خوفناک منصوبہ منظر عام پر آچکا ہے۔ اس کا انکشاف واشنگٹن پوسٹ نے 24/اکتوبر کو منظر عام پر آنے والی اپنی رپورٹ میں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے دوسال کے دوران اوباما انتظامیہ دہشت گردوں کی آئندہ نسل کا تعاقب کرنے اور انہیں ختم کرنے کے لئے خفیہ طور پر ایک بلیو پرنٹ تیار کرتی رہی ہے۔ اس کے تحت دہشت گردوں کی مکمل فہرستیں مرتب کی جائیں گی جن میں آئندہ نسلوں کی تفصیلات بھی درج ہوں گی اور جب بھی موقع ملے گا انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں کے معصوم بچوں کو بھی قتل کرڈالنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ گویا فرعونِ موسیٰ کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے آئندہ کم از کم دس سال کے لئے فہرستوں کی تیاری کاکام شروع کردیا ہے جنہیں وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا تاکہ کوئی دہشت گرد بچنے نہ پائے۔رپورٹ کے مطابق جو دہشت گرد ڈرون حملوں سے نہیں مارے جاسکیں گے انہیں شکار کرنے کے لئے سی آئی اے اور فوج کے انتہائی تربیت یافتہ اہلکاروں کو اسامہ بن لادن جیسے آپریشن کے لئے تیار کیا جائے گا اور جہاں بھی ان دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملے گی یہ گروپ ان پر جھپٹ پڑے گا۔ یہ رپورٹ جو حساس اداروں کے درجنوں اہل کاروں سے معلومات حاصل کرکے تیار کی گئی ہے، بتاتی ہے کہ اگرچہ محکمہ خارجہ، پینٹاگون اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے اس پروگرام کے بارے میں زبانیں بند کر رکھی ہیں لیکن انتہائی قابل اعتماد اہلکاروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس پروگرام کو امریکی خارجہ پالیسی میں خصوصی اہمیت حاصل رہے گی۔
جہاں تک امریکی قیادت کی جانب سے اس ماورائے عدالت قتل عام کی قانونی حیثیت کا تعلق ہے تو نہ کوئی انصاف پسند آدمی اسے جائز اور قانونی تسلیم کرسکتا ہے اور نہ بین الاقوامی قانون اور خود امریکی آئین اور قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دوسری دفعہ کی چوتھی شق میں تمام رکن ملکوں کو دوسرے رکن ممالک کی حدود میں طاقت کے استعمال یا ایسا کرنے کی دھمکی یا ان کی سیاسی خودمختاری کے خلاف کسی بھی اقدام کو صاف لفظوں میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ امریکی ماہر قانون Bill Quigley نے بڑی جامعیت کے ساتھ ڈرون حملوں کے غیرقانونی ہونے کے پانچ اسباب بیان کئے ہیں جو یہ ہیں:
پہلا سبب صدر جیرالڈ فورڈ کی جانب سے 1976ء میں جاری کیا جانے والا صدارتی حکم ہے جسے صدر ریگن نے اپنے دور میں ایک حکم کے تحت مزید واضح کیا۔ ان صدارتی احکام کے تحت امریکہ کی تمام ریاستوں میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لئے دنیا میں کہیں بھی کسی کے قتل کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا اور یہ قانون آج بھی نافذ ہے۔ صدر جیرالڈ فورڈ نے یہ حکم سی آئی اے کی جانب سے کیوبا کے صدر فیڈل کاسٹرو ، کانگو کے سربراہ پیٹرک لوممبا اور بعض دوسرے افراد کے قتل کی سازش سامنے آنے پر جاری کیا تھا۔ ڈرون حملوں کے ناجائز ہونے کا دوسرا سبب اس تجزیئے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مئی 2010ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ آسٹن نے امریکی ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت پر براہ راست سوال اٹھایا تھا اور ان کے قانونی ہونے پر عدم اعتماد ظاہر کیا تھا۔ اس رپورٹ میں غیر متحارب ملکوں میں ڈرون حملوں کو قطعی ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ تیسرے سبب کے بیان میں انہوں نے بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی آراء نقل کی ہیں جنہوں نے ڈرون حملوں کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ ڈرون حملوں کے ناجائز ہونے کا چوتھا سبب بل کوئیگ لے نے امریکہ کے موجودہ فوجی قانون کو قرار دیا ہے، اس کے لئے ”یو ایس ملٹری لاء آف وار ڈیسک بک “ سے حوالے دیئے گئے ہیں اور پانچویں سبب کے تحت امریکہ کے ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسروں کا موقف بیان کیا گیا ہے مثلاًکرنل این رائٹ کہتے ہیں ”یہ ڈرون ، انہیںآ پ قتل و غارت کی مشینیں کہہ سکتے ہیں۔ ان ڈرونز کو ایسے لوگوں کے اہدافی قتل یعنی ماورائے عدالت حتمی موت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جن پرکوئی جرم ثابت نہیں“۔ ڈرون حملوں کے بارے میں سی آئی اے کے انسداد دہشت گردی مرکز کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر رابرٹ گرینیر کی رائے ہے کہ ان کے نتیجے میں دہشت گردی کم نہیں ہوتی بلکہ اس ظلم کے خلاف ردعمل اس رجحان میں اضافہ کرتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے ” ان غیر ذمہ دارانہ میزائل حملوں کے ردعمل میں نہ جانے کتنے یمنی مستقبل میں پُرتشدد انتہاپسندی کا راستہ اختیار کریں گے اور اپنے خلاف امریکہ کے اقدامات کے سبب ان میں سے کتنے عسکریت پسند خالص مقامی ایجنڈے کے ساتھ مغرب کے کٹر مخالف بن کر ابھریں گے“۔
حکومت پاکستان کا موقف بھی یہی ہے کہ ڈرون حملے غیرقانونی اور پاکستان کی خودمختاری کے منافی ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر 28 ستمبر کو نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں یہ بات بڑے دوٹوک الفاظ میں کہہ چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قانونی طریقے تلاش کئے جانے چاہئیں۔چار اکتوبر کو اسلام آباد میں روسی اور پاکستانی وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں نہایت دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ڈرون حملے بین الاقوامی قانون اور پاکستان کی سا لمیت اور علاقائی خودمختاری کے منافی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب بین الاقوامی قانون کی رو سے پاکستان پر آٹھ سال سے جاری امریکی ڈرون حملوں کے غیرقانونی ہونے پر سب متفق ہیں تو ان حملوں کو اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیوں نہیں کیا جاتا۔ حکومت پاکستان کا یہ رویہ صبر و تحمل کی کسی قسم سے تعلق نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت یہ بے حسی اور بے عملی کا افسوسناک مظاہرہ ہے۔ صدر اوباما ڈرون حملوں اور ماورائے عدالت قتل و غارت کے حوالے سے اپنا پروگرام دوبارہ منتخب ہونے سے پہلے ہی واضح کرچکے ہیں، انہیں روکنے کے لئے بین الاقوامی فورموں پر معاملے کو اٹھانے میں اب بھی لیت و لعل سے کام لیا گیا تو یقینی طور پر مزید ہزاروں سوختہ لاشوں کے تحفے اور اس کے ردعمل میں سیکڑوں خودکش حملے اہل پاکستان کا مقدر ہوں گے اور یہ خون ناحق جتنا امریکی حکمرانوں کی گردن پر ہوگا کم از کم اتنا ہی پاکستانی حکمرانوں کی گردن پر بھی ہوگا۔
تازہ ترین