• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے عوام اس حد تک 2018 ء کے انتخابات سے ضرور مطمئن ہیں کہ اب کی بار مرکز میں ایک ایسی سیاسی جماعت اقتدار میں آرہی ہے اور ایک ایسا سیاسی رہنما یعنی عمران خان ملک کے سربراہ بننے جارہے ہیں جو اب تک نہ مرکز میں نہ ہی سندھ میں اقتدار میں رہے ہیں۔ یعنی سندھ کے عوام اس حد تک ضرور اس تبدیلی سے مطمئن ہیں کہ سندھ کم از کم اب تک اس سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ عمران خان کے براہ راست زخم خوردہ نہیں ہیں‘ اس وجہ سے کم سے کم اس نقطہ نگاہ سے سندھ کے عوام مرکز میں آنے والی نئی تبدیلی سے کسی حد تک خوفزدہ نہیں‘ سندھ کے لئے یہ بات بھی پریشان کن نہیں کہ عمران خان کی پارٹی بشمول پنجاب باقی تین صوبوں میں بھی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے‘ کے پی جہاں وہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اقتدار میں رہی ہے جبکہ اس بار وہ پنجاب میں بھی اس حد تک اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے کہ قوی امکانات ہیں کہ وہ پنجاب میں بھی چند گروپوں اور آزاد ارکان کی حمایت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے۔اسی طرح بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی وہاں اقتدار میں آنے والی حکومت کا حصہ ہوگی جو ویسے ہی مختلف گروپوں پر مشتمل نظر آرہی ہے۔واحد صوبہ سندھ ہے جہاں پی پی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے مگر سندھ میں بھی پی ٹی آئی خاص طور پر کراچی سے اتنی نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے کہ باقی سندھ سے چند نشستیں حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی ‘ پی پی کے بعد دوسری اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے حالانکہ ہر طرف سے یہ شکایات ہورہی ہیں کہ پی ٹی آئی کو جتوایاگیا ہے‘ ان اعتراضات پر کسی حد تک یقین بھی آنے لگتا ہے مگر ساتھ ہی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ شایدان اعتراضات میں وزن نہ ہو کیونکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خاص طور پر باقی دو صوبوں کے لوگ حکمران جماعتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے مگر سندھ کی حد تک پی پی کے آئندہ کے کردار پر سندھ کے عوام کسی حد تک اچھی توقعات کا اظہار بھی کررہے ہیں‘ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اب کی بار جس طرح بلاول بھٹو کو آگے لایا جارہا ہے اس سے لوگوں میں یہ توقعات پیدا ہوئی ہیں کہ شاید پی پی کو اب پرانی زنجیروں سے آزادی ملے اور بلاول بھٹو پی پی کو ایک بار پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے سیاسی راستے پر چلا کر آئندہ کی سیاست کرے۔ اس حوالے سے سندھ کے لوگوں نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے لئے ایک بار پھر مراد علی شاہ کا نام آگے لایا گیا ہے مگر لوگ ضرور سوال کررہے ہیں کہ سید مراد علی شاہ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہوں گے یا پیچھے سے بندھے ہوئے ہوں گے مگر ساتھ ہی امکانی طور پر سندھ کے آئندہ کے وزراء کے نام جو آگے آرہے ہیں تو ان میں سے اکثر کے نام پڑھ کر لوگ کافی حد تک مایوس ہوجاتے ہیں‘ بہرحال دیکھیںآگے ہوتا ہے کیا؟ میں نے یہ کالم پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے مخصوص کیا تھا مگر ابتدائیہ کے طور پر میں سندھ کے حوالے سے پی پی کی بات کر بیٹھا حالانکہ مجھے آئندہ کالم پی پی اور خاص طور پر بلاول بھٹو کو مخاطب کرکے لکھنا ہے مگر عمران کو مخاطب کرنے سے پہلے میں اس بات پر کسی حد تک ضرور اپنے اعتماد کا اظہار کروں گا کہ چاہے محرکات کچھ بھی ہوں مگر اب سیاست کی یہ جو شکل بن رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بشمول قومی اسمبلی ساری صوبائی اسمبلیوں میں انتہائی طاقتور اپوزیشنیں موجود ہوں گی‘ میرے خیال میں یہ تبدیلی شاید پاکستان کے مفاد میں ثابت ہو۔ میں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ قطع نظر اس بات کے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کی طرف سے کراچی کی سیٹوں کی اکثریت پر کامیابی جائز طور پر ہوئی ہے یا کسی ’’ترکیب‘‘ کا نتیجہ ہے‘ اس حد تک ضرور مناسب ہے کہ پی پی کی حکومت کو بھی ایک مضبوط اکثریت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس تجربے سے نہ فقط سارے ملک میں جمہوریت کے عمل کو تقویت ملے گی بلکہ خاص طور پر سندھ کے اسمبلی ممبران کی بھی تربیت ہوگی لیکن سندھ کے عوام کو کم سے کم دو باتوں کی وجہ سے عمران خان کی پالیسیوں پر کافی شکوک و شبہات ہیں‘ اس میں سے ایک بات یہ ہے کہ منتخب ہونے کے بعد عمران خان نے پی ایم ایل (ن) کے خلاف اتنا سخت بیان جاری نہیں کیا جتنا پی پی کے خلاف کیا ہے‘ اس وجہ سے سندھ کے کئی حلقوں میں یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر پی پی کے ساتھ اتنی سخت مخاصمت ہے تو کہیں پی پی کو سزا دینے کے شوق میں وہ سندھ کے خلاف کوئی انتہائی ناروا سلوک نہ کر بیٹھیں‘ دوسری بات یہ ہے کہ اب تک آنے والی اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کو ملک کے مختلف حصوں سے منتخب ہونے والے گروپوں میں سے اگر سب سے زیادہ کسی گروپ کو مرکزی حکومت میں شامل کرنے کا جو زور لگایا جارہا ہے وہ ایم کیو ایم کیلئے ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم نے جو پہلے دیگر مخالف جماعتوں اور گروپوں کی اے پی سی میں شرکت کررہی تھی اس نے ان سے فاصلہ قائم کرلیا ہے اور اب ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی قیادت میں گفت و شنید جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں ایم کیو ایم کی قیادت کے کئی اجلاس ہوئے ہیں جس میں بقول ان کے، کئی تجاویز کو آخری شکل دی جارہی ہے‘ سندھ کے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تجاویز کیا ہوسکتی ہیں‘ اب سندھ کے سیاسی طور پر بالغ نظر غیر جانبدار سیاسی حلقے بھی اس قسم کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں کہ اب جو کراچی پاکستان کا سب سے پرامن علاقہ بن چکا ہے تو ان اقدامات کے نتیجے میں کہیں کراچی ایک بار پھر اس غار میں غرق ہونے تو نہیں جارہا ہے جس میں کراچی کے لوگ گزشتہ کئی سالوں سے عذاب برداشت کرتے رہے ہیں‘ کچھ ہی دن پہلے پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما کی طرف سے یہ بھی بیان آیا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مختلف اشیاء اور سروسز پر ٹیکس وصول کرنے کا جو حق دیا گیا ہے اسے تبدیل کردیا جائے گا بلکہ کچھ حلقوں میں تو یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ساری 18 ویں آئینی ترمیم کو شاید آئین سے ہی خارج کردے‘ اس بات کی وجہ سے بھی سندھ کے کئی متعلقہ حلقوں میں پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں سے ایسے کئی خدشات ہیں حالانکہ منتخب ہونے کے بعد عمران خان نے جو پالیسی بیان جاری کیا تھا وہ قابل تعریف تھا۔ انہوں نے غربت ختم کرنے اور کسانوں اور مزدوروں کی بہبود کی جو بات کی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے۔ تاہم اس ’’مثالی‘‘ پالیسی اعلان میں اگر کوئی پالیسی بیان نہیں ہے تو ’’صوبائی خود مختاری‘‘ کے بارے میں نہیں ہے‘ سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے اس کے ساتھ جو اب تک سلوک روا رکھا گیا ہے اسے برقرار رکھا جائے گا یا اس میں سندھ کے عوام کی خواہشات کے مطابق تبدیلی لائے جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے پہلے یا فوری بعد سندھ کے بارے میں ایک جامع پالیسی کا اعلان کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین