• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریٹائرڈایئرمارشل اصغرخان کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی افق پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی جنگ بڑے زوروں سے جاری ہے درمیان میں عمران خان مسلم لیگ (ن) کی قیادت پرحملے کر رہے ہیں اور ایسا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ پرنٹ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا بھی اپنا حصہ ڈال رہاہے۔ اس سیاسی اچھل کودمیں خادم پنجاب میاں شہباز شریف کا کمال ہے کہ تعمیری کاموں کے لئے بھی کچھ وقت نکال لیتے ہیں اور یہی ایک بات ہے جو انہیں دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔
چاروں طرف سے الزاما ت کی اس بوچھاڑ میں ”ڈینگی انٹرنیشنل کانفرنس“ کرکے انہوں نے اس وبا پر قابو پانے کی تحریک میں ”فتح“ کااعلان کیا اور ”وکٹری سٹینڈ“ پرجا پہنچے ہیں۔واقعی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس سال ڈینگی سے صوبہ میں ایک موت بھی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس کراچی اور سندھ میں اس وقت بھی ڈینگی بخار کے مریضوں کے تعداد 90 کے قریب ہے۔ اس سال موسم شروع ہوتے ہی ڈینگی کے خلاف ایسی بھرپور کارروائی کی گئی کہ اس موذی مچھر کو افزائش سے قبل ہی ”ملیامیٹ“ کردیا گیا۔ ڈینگی لیرے کو تلف کرنے کی باقاعدہ اوربلاامتیاز مہم چلائی گئی جس میں وزراء، ارکان اسمبلی، تمام بڑے چھوٹے افسر و اہلکاروں نے ایک ٹیم کی طرح دن رات کام کیا جس کارخانے، فیکٹری یا مقام پر لیرے پائے گئے ان کے نہ صرف چالان کئے گئے بلکہ فیکٹری کو سیل کردیا گیا۔ شہبازمیاں کا سٹینڈنگ آرڈر تھا کہ کسی کے ساتھ چاہے وہ کوئی بھی ہو کوئی رعایت نہ کی جائے اور ایسا ہی ہوا ایسے افراد کے کارخانوں، فیکٹریوں کو سیل کیاگیا جو مسلم لیگ ن کے بااثر افراد کی ملکیت تھے۔ ایک بڑے صنعتکارکا کارخانہ سیل کیا گیا جس پر وزیراعلیٰ سے”شاباش“ بھی ملی اورسب سے اہم یہ کہ خادم پنجاب نے اس ساری مہم کی ”ٹیم کپتان“ کے طور پر نگرانی کی۔
گزشتہ اگست میں ڈینگی ایک خوفناک وباکی صورت حملہ آور ہوااور دیکھتے دیکھتے اس نے سارے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لاہور اور دوسرے شہروں میں سرکاری ہسپتال ہی نہیں نجی ہسپتال اور کلینک مریضوں سے بھر گئے۔ صوبہ میں طبی ایمرجنسی قائم کردی گئی۔ سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور سے طبی ماہرین اورسٹاف کی خدمات حاصل کی گئیں۔میاں شہباز شریف اس ڈینگی بخار سے دودو ہاتھ کرنے کیلئے میدان میں آگئے اور دن دیکھا نہ رات ڈاکٹروں، حکام و اہلکاروں کے ساتھ ڈینگی مچھروں کو تلف کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ادویات خصوصی طورپر بھارت اور دوسرے ملکوں سے منگوائی گئیں۔
ڈینگی ٹیسٹ کے لئے کٹس فراہم کی گئیں اس کے باوجود بہت سی اموات ہوئیں تاہم یومیہ مریضوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی۔ وبا کازور اس قدر شدید تھا کہ شہباز میاں نے یہ الزام عائد کر دیا کہ ایک سازش کے تحت ڈینگی مچھر کو پنجاب میں داخل کیا گیا ہے۔ لیکن شہباز میاں نے ہمت ا ورحوصلے سے اس کا مقابلہ کیا۔
گزشتہ دنوں اس حوالے سے ایک انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصدغیرملکی ماہرین کی خدمات کا اعتراف تھا جس میں انہیں اسناد بھی دی گئیں، مقامی طورپر خدمات سرانجام دینے والے افسروں و اہلکاروں کو بھی انعامات و اسناد دی گئیں جو ایک اچھی روایت ہے۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں شہبازشریف نے کہا کہ ”تاریخ کی بدترین وبا کا مقابلہ جذبے، ہمت، حوصلہ اورولولے سے کیا۔ اللہ کے حضور جتنا بھی شکرکریں کم ہے۔“میاں شہباز شریف کاکہنا تھا کہ ڈینگی کا مقابلہ ٹیم ورک کی ایک لازوال مثال ہے۔ اگر اس مثال کو سامنے رکھ کرزندگی کے ہر شعبے میں کام کیاجائے تو ہم تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں یہ بجا سو فیصد درست لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیم کون بنائے گا؟ اور ٹیم ورک کیسے ہوگا؟ یہ تو اس خوفناک وبا کی بات تھی جو عذاب بن کر نازل ہوئی اورصوبہ کوشہبازمیاں جیسے انتھک، محنت کش شخص کی قیادت میسر تھی جس نے سب کو متحرک کردیا۔ ورنہ کہاں کی ٹیم کہاں کا ٹیم ورک۔ ان دنوں صبح سات بجے ماڈل ٹاؤن میں ”ریویو اجلاس“ سے آغاز ہوتا تھا۔ اگرچہ میرے لئے صبح ساڑھے چھ بجے اٹھنا ”جوئے شیر“ لانے کے مترادف ہے لیکن شعیب بن عزیز کے اصرارپر ایک دن ہمت کرکے میں بھی وہاں پہنچ گیا جومیرے لئے ایک خوشگوار تجربہ بھی تھا کہ میاں شہبازشریف ہر ایک سے بریفنگ لیتے تھے اورہدایات جاری کرتے تھے۔ اس میٹنگ میں یومیہ کارروائی کی ویڈیو فلم بھی دکھائی جاتی تھی۔
میرے اپنے علاقہ میں ایک جگہ پانی کھڑا ہو گیا تھا اس حوالے سے میٹنگ میں بتایا کہ جس ایمرجنسی فون نمبر کی تشہیر کی گئی ہے اس پررابطہ کرنے کے باوجود کارروائی نہ ہوئی۔ علاقہ کے رکن قومی اسمبلی عمر سہیل بٹ کو فون کیا اس نے صفائی کروائی…اس پر شہبازشریف نے غصہ سے متعلقہ افسر انچارج کی طرف دیکھا اور اتنا ہی کافی تھا کہ متعلقہ محکمہ کے ایک دو نہیں کئی حکام اور اہلکار میرے گھر پہنچ گئے اورسارے علاقے کا خوب سپرے کیاگیا۔ بات ٹیم ورک کی ہو رہی تھی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماعی طور پر ایک ٹیم کی حیثیت سے اگر ملکی مسائل اور عوامی مصائب کے سدباب کیلئے اقدام کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں حالات بہتر نہ ہوں تاہم اس حوالے سے سیاسی ہم آہنگی، مفاہمت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھاجائے تومنتخب ادارے بھی تو ایک ٹیم ہیں اور تمام منتخب ارکان ”ٹیم ورک“ کریں تو آپس میں بحث و مباحثہ (مشاورت) کرکے ہر بڑے چھوٹے مسئلے کاحل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اب فلاح کے اس راستے کواپنانا ہوگا کیونکہ ملک ”بندگلی“تک جا پہنچاہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ وقت ”سیاست گردی“ کا نہیں ملک کے تحفظ، قومی اتحاد کا ہے دہشت گردی کے خلاف بھرپور قدم اٹھانے کا ہے۔ ”وقت کی آواز“ ہے کہ ماضی کو بھلا کر اچھے مستقبل کے لئے اتحادویگانگت کی فضا قائم کرنے کے لئے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کارلایا جائے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیاجائے۔ آپس میں سیاسی لڑائی جھگڑے اپنی جگہ انہیں تو جمہوریت کاحسن کہاجاتا ہے لیکن ملک کے استحکام پر پہلے توجہ دینی ہوگی۔
تازہ ترین