ادیب و لکھاری کے گھر کے بارے میں جاننا، ان کی آپ بیتی پڑھنے کے تجربے کی مانند ہے۔ اس طرح آپ کو ادیب کےادبِ عالیہ اور شخصیت کے بارے میں گہرائی سے جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کس ماحول اور مقام پر انہوں نے شاندار ناول اور کتابیں تحریر کیں جنہیں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔
آپ کو چند معروف ادیبوں کے گھرکے بارے میں بتاتے ہیں، جہاں انہوں نے زیست کے روز و شب بسر کیے۔ مغرب کے ان عظیم ادیبوں کے شاندار گھر دیکھ کر مشرقی ادیب کا یہ فلسفہ بے معنی دکھائی دیتا ہے کہ عظیم ادب غربت میں پنپتا ہے۔
جان اسٹائن بیک کا آشیانہ،کیلیفورنیا
1962 ءمیں ادب کا نوبل انعام پانے والے امریکی ادیب اسٹائن بیک نے اپنا بچپن وکٹورین ہاؤس میں گزرا اور 1934ء میں جوان ہونے تک اپنی ماں کی تیمارداری کرتے ہوئے اسی گھر میں مقیم رہے۔ اس دوران ان کا معروف ناول ’’دی ریڈ پونی‘‘ شائع ہوا۔ بےچین اور حساس بچہ ہونے کے باعث اسٹائن بیک اپنی مڈل کلاس نشوونما سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ سلیناس کے آس پاس سبزیوں کے کھیتوں میں مشقت کرنے والے تارکین وطن مزدوروں کو دیکھ کر ملول ہوتے رہے۔ان کے کئی ناولز ،بالخصوص ’’ایسٹ آف ایڈن ‘‘میں اس دکھ کی جھلک ملتی ہے۔ اب اگر آپ وہاں جائیں تو اسٹائن بیک کے گھر کے قریب واقع ریسٹورنٹ میں لنچ کرسکتے ہیں، جو کبھی اسٹائن بیک کا پارلر ہوا کرتا۔
رالف والڈو ایمرسن کا مکان، میساچوسٹس
معروف امریکی مضمون نگار، فلسفی، شاعراوراستاد ایمرسن اس گھر میں 1882ء تک قیام پذیر رہےاور اسےماورائیتی فلسفے کا صدر دفتر بنائے رکھا۔ یہاں ہینری ڈیوڈ تھورو جیسے فطرت پسند فلسفی بھی آتے اورمہمان خانے ،جسے انہوں نے پلگرمز چیمبر کا نام دے رکھا تھا،میںقیام بھی کرتے۔ ایمرسن نے اپنے مضامین ’فطرت‘ اور’ خودانحصاری‘ پہلی منزل پر واقع اپنے اسٹڈی روم میں تحریر کیے، ہر چند بعد ازاں ان کے فرزند نے کہا کہ ایمرسن کے مطالعے کی اصل جگہ والڈن ووڈز کے قریب تھی۔
ایملی ڈکنسن کا مسکن، میساچوسٹس
ایملی ڈکنسن کو گمنام شاعرہ مانا جاتاہے، جن کی زیادہ تر شاعری ان کے انتقال کے بعد منظرِ عام پر آئی۔ تاہم بڑی کھڑکیوں اونچی چھت والا ان کا دیدہ زیب مکان سب کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز رہا، جہاں وہ اس شان سے مقیم رہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آیا کہ یہ مسکن ایک شاعرہ کا ہے۔ اسی مکان کے بیڈ روم میں استراحت ہوکر انہوں نےدوہزار کے قریب غزلیں،نظمیں اور سانیٹ لکھے۔ ویسے بھی زیادہ تر شاعروں کی سرگرمیاں پراسرار رہتی ہیں، یہی بات ڈکنسن پر صادق آتی ہے۔
جیک لنڈن کا گھر،کیلیفورنیا
اپنے وقت کے انتہائی کامیاب ادیب ہونے کے ساتھ لنڈن ایک پرجوش کسان بھی تھے، جنہوں نے کیلی فورنیا کے سونوما کے نزدیک1400 ایکڑ زرعی زمین خریدی اور یہاں کاشتکاری کی۔ انہوں نے اپنے مویشیوں کی خوراک کے لیے ناگ پھنی کے پودےاگائے۔ انہوں نے چارے کو محفوظ رکھنے کے لیے گودام اور ایک شاندار گھر بھی تعمیر کروایا جہاں وہ تادمِ مرگ مقیم رہے۔ انہوں نے افسانے،ناول اور شاعری سمیت ادب کی تمام اصناف میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ جنگل اور فطرت کے بارے میں ان کی کہانیوں نے ایک عالم کو اپنے وجد میں رکھا ۔
ولیم فاکنر،مسیسپی
کچھ ہی ادیبوں کا گھر اتنا منفرد رہا ہے جیسا فاکنر کا، درختوں سے گھرے سبزہ زار میں واقع اس نفیس گھر میںوہ 30برس سے زائد عرصہ رہے اور بیشتر ناول بشمول’’لائٹ ان آگسٹ‘‘ یہیں تحریر کیے۔ فاکنر نے جب یہ گھر خریدا تو یہاں پانی و بجلی نہیں تھی، انہوں نے کئی دن گھر کو بہتر بنانے میں صرف کیے۔ گھر کی وائرنگ خود کی اور بیرونِ خانہ برک ٹیرس بھی خود بنایا۔ اپنے مطالعے کے کمرے میں وہ پیچیدہ پلاٹ دیوار پر لکھتے اور جب کام مکمل ہوجاتا تو دیوار کو رنگ و روغن کرکے دوبارہ دیدہ زیب بنا دیتے۔ان کے ناول فیبل کے پلاٹ کی کچھ سطور آج بھی دیوار پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مارک ٹوین کا گھر،کنیکٹیکٹ
معروف امریکی ادیب اور مزاح نگار مارک ٹوین نے اپنی زندگی کے خوشگوار ترین دن اسی مکان میںاپنی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے ساتھ گزارے۔ انہوں نے سات اہم ناول بشمول ’دی ایڈونچرز آف ہَکل بیری فِن‘ یہیں تخلیق کیے ۔ اس گھر کی تعمیر میں ان کا بہت پیسہ لگا جو بعد ازاں ان کی عزلت نشینی کی وجہ بھی بنا اور انہیں معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر کا اندرونی ڈیزائن معروف انٹیریئر ڈیزائنر لوئس کمفرٹ ٹفنی نے بنایا۔
ہیمنگوے کا گھر، فلوریڈا
ارنسٹ ہیمنگوے اس گھر میں اپنی دوسری اہلیہ پاؤلین کے ساتھ مقیم رہے۔ انہوں نے زیادہ تر ناول دفتر کی میز پر بیٹھ کر لکھے،جہاں جانے کے لیے آپ کو پل پار کرنا پڑے گا۔ اس کی بالائی منزل پر آرام دہ بستر ہے، یہیں آپ کو ہیمنگوے کی چہیتی بلیاں بھی ملیں گی، جن کو وہ خوش قسمت قرار دیتے تھے۔ انہوں نے بہت ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ آخری دنوں میں وہ ہائپر ٹینشن کے مریض ہوگئے اور ہر شخص انہیں مشکوک دکھائی دیا۔