• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے مختلف علا قوں میں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ایک درجن سے زائد اسکولوں کا نذر آتش کردیا جانا علم دشمنی ہی نہیں انسانیت دشمنی کی بدترین کارروائی ہے لہٰذا اس کے ذمہ داروں کا جلد از جلد قانون کی گرفت میں لایا جانا ضروری ہے۔ بعض ذرائع نے اس تازہ کارروائی کو کسی دہشت گرد تنظیم کے بجائے ان مقامی عناصر کا اقدام قرار دیا ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں۔ تاہم راتوں رات محض چند گھنٹوں میں متعدد علاقوں میں اتنے بڑے پیمانے پر اسکولوں کا نذر آتش کردیا جانا بظاہر کسی منظم گروہ ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ تحقیقات میں تمام پہلوؤں اور امکانات کو پیش نظر رکھ کر ذمہ داروں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے چیف جسٹس کے فیصلے کے مطابق قومی سطح پرجو سرگرمی شروع ہوئی ہے، یہ کارروائی امن وامان کی صورت حال کی خرابی کے ذریعے ڈیموں کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کی مہم کا حصہ ہواور اس کے پیچھے پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہو۔ اطلاعات کے مطابق اسکولوں کو جلانے کے واقعات کے بعد پولیس اور ضلعی انتظامیہ موقع پر پہنچ گئی اور پولیس نے علاقہ کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکہ بندی کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ واقعہ کے بعد آئی جی گلگت بلتستان اور فورسزکمانڈر میجر جنرل ثاقب محمود نیز کمشنر دیامیر نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے پہنچ گئے۔ تاہم کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس تخریبی کارروائی کا بروقت پولیس اور حساس اداروں کے نوٹس میں نہ آنا اور درجن بھر اسکولوں کے تباہ کردیئے جانے کے بعد متحرک ہونا، بہرحال تمام متعلقہ ذمہ داروں کے لیے انتہائی توجہ طلب معاملہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ صورت حال حفاظتی انتظامات کے ناقص ہونے کا واضح مظہر ہے۔ نگراں وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور ملک کے متوقع وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں اور حکومتی شخصیات نے اس علم دشمن کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچانے اور تعلیمی اداروں کی حفاظت اور ملک میں علم کے فروغ کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے ، اس عزم کو کم سے کم وقت میں عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام ضروری اتدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔تادیبی کارروائی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے غلط خیالات کی اصلاح کے لیے بھی مؤثر اقدامات عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے جو لڑکیوں کی جدید تعلیم کو دینی تقاضوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت کو عام کیا جانا چاہیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کو ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے فرض قرار دیا ہے۔ رسول خدا نے ہمیں بتایا ہے کہ حکمت کی ہر بات مومن کی میراث ہے لہٰذا وہ جہاں سے بھی ملے حاصل کرو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں یونانی فلسفے سمیت دوسری اقوام کے علوم کا عربی ترجمے کا بھرپور اہتمام کیا اور ان علوم سے نہ صرف مکمل واقفیت بہم پہنچائی بلکہ ان پر نہایت معیاری تنقید کرکے ان کی خامیوں کی اصلاح بھی کی۔’’علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے‘‘ یہ قول بھی بتاتا ہے کہ دینی ہی نہیں دنیاوی علوم بھی بڑھ چڑھ کر حاصل کرنے کی مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے۔ ان ہی تعلیمات کے باعث مسلمانوں نے سینکڑوں سال تک محض قرآن و سنت کے عالم ہی پیدا نہیں کیے بلکہ طب، کیمیا، ریاضی،طبیعات اور سائنسی علوم کے دوسرے شعبوں میں دنیا کی امامت کی اور انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ان علوم سے کام لیا۔بوعلی سینا، ابن الہیثم، خوارزمی، رازی، غزالی اور فارابی جیسے علم کے سمندر ان ہی ہدایات پر عمل کے سبب مسلمان دنیا کو دینے کے قابل ہوئے۔مسلمان خواتین پر بھی ان دنیاوی علوم کے حصول کے حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی لہٰذا ان کی جدید تعلیم کو دین کے منافی تصور کرنا درست نہیں، اس روش کا ترک کردیا جانا ہی دین کا تقاضا ہے۔ لڑکیوں کی جدید تعلیم کی مخالفت کے مستقل سدباب کیلئے ذہنوں کی یہ اصلاح ناگزیر ہے۔

تازہ ترین