• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاکستان کے لئے جمہوریت راس ہے؟شاید اتنی نہیں جتنی لاحاصل گفتگو ،افواہیں اور سازش کی سدا بہار تھیوریاں… اور وہ بھی تھوک کے حساب سے۔ اس میں ابھی ایک افواہ کا دیومالائی کردار ھائیڈرا کی طرح بمشکل ایک سر کٹتا ہے کہ کئی اور نمودار ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں گپ شپ اور بے معنی گفتگو ایک نہایت بار آور فصل ہے اور اس کی خوشہ چینی کرنے والے بھی بے کار رہنے کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
میمو گیٹ کا معاملہ یاد ہے؟ اُس وقت ایسا لگتا تھاکہ چرخ ِ نیلی فام لہو رنگ ہو کر ٹوٹنے ہی والا ہے۔انصاف کی شمشیر بے نیام ہو کر ایوان ِ صدر کی سمت ایستادہ تھی جبکہ ہمارے بزرجمہر آئینہ ِ ایام میں تبدیلی کے اشارے دیکھ رہے تھے… اور کسی کو بھی’ ’مغالطہ “ نہ تھا۔ معاملہ اتنا سنگین دکھائی دے رہا تھا کہ وہ لوگ جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ کم از کم وہ تو حواس قابو میں رکھیں گے، وہ بھی جذبات کے بگولوں پر سوار ہوگئے ، لیکن جب اُس غبارے میں سے ہوا نکلی تو دھرتی کا دل دہلا دینے والا اسپ ِ تازی کھلونوں کی دوکان پر پڑا تھا جبکہ طفل ِ مکتب بھی اُسے آنکھ بھر کر دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ پر شکوہ نقاروں کی دھوم دم توڑتی ہوئی لے میں بدل گئی اور زلف ِ ایاز کا خم سلجھنے سے پہلے ہی غزنوی کی تڑپ ہوا ہو گئی۔
تاہم خاطر جمع رکھیں! بے حوصلگی ہماری صفات میں سے نہیں ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان آباد شہر کی فضا افواہوں کی بالیدگی کے لیے نہایت موزوں ہے، چنانچہ موسم کی حدت کم ہوتے ہی آج کل شہر کی فضا کچھ اور افواہوں سے گرم ہے۔ ان کا تعلق دوسال پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی صاحب کو نہر سوئز کے اس پار… بلکہ اُس پار بھی… زیرک ترین سیاست دان، جو خیر سے اس مملکت ِ خدا داد کے صدر بھی ہیں، کی طرف سے مدت ِ ملازمت میں دی گئی توسیع کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست سے ہے۔ ایک جج صاحب نے اس درخواست کو قابل ِ سماعت نہ گردانتے ہوئے مسترد کر دیا… اور یقیناً دانائی کا ثبوت دیا ، مگر ایک اور اپیل کے بعد بنچ کے کچھ جج صاحبان نے اسے منظور کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی افواہ ساز فیکٹریوں کی شفٹ بھی شروع ہو گئی۔اس پٹیشن کے دائر کنندہ ایک وکیل ، جو کہ ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں اور جی ایچ کیو کے آئینی امور کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں، کا کہناہے کہ کیانی صاحب کی مدت ِ ملازمت میں توسیع غیر قانونی تھی، چنانچہ وہ اس معاملے کو ، اگرلے جانا پڑا ، سپریم کورٹ میں بھی لے جائیں گے․․․ آفرین ہے سابقہ کرنل صاحب کی شجاعت پر!
اگر ماضی میں زیادہ تر افواہوں کا رخ جی ایچ کیو یا آئی ایس آئی کے معاملات کی طرف ہی ہوتا تھا ،تو آج کل عدالت ِ عالیہ کے معزز جج صاحبان ، جنہوں نے اس ریاست کے ہر بگڑے ہوئے کا م کو سنوارنے … سوائے ماتحت عدلیہ کے… کا عقربی کام اپنے ذمے لیا ہوا ہے،افواہ سازوں کے تخیل پر ہماآسا ہیں۔ چشم دل وا ہو یا نہ ہو، اگر الزام لگانا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں طاقت کا محور بدل چکا ہے اعلیٰ عدلیہ نے ایگزیگٹیو کی ذمہ داریاں بطریق ِ احسن سنبھال رکھی ہیں… خیر ایگزیکٹیو کی کس کو پروا ہے مگر صاحب، وردی پوش حضرات کی ناراضگی مول لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور جاری ہونے والی حالیہ آئی ایس پی آر میں اس خفگی کا اظہار مخفی ہر گز نہ تھا۔ اس میں دی گئی وارننگ اگرچہ محتاط لہجے میں تھی مگر یہ جملہ یقیناً بہت کچھ کہہ گیا تھا․․․” اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرنے کی کوشش سب کو نقصان پہنچائے گی“۔ اس کا مخاطب کون تھے؟ نہ توصدر ِ صاحب، جنہوں نے خودحفاظتی طرز ِ عمل کو ایک فن کی جہت عطاکر دی ہے، نہ ہی اپنی قسمت پر ہر آن تہہ دل سے شکرگزار ہمارے وزیر ِ اعظم اور نہ ہی پارلیمنٹ ، جس میں خود مختاری کا گاہے بہ گاہے ابال تو اٹھتا رہتا ہے مگر محاورے کے مطابق بوقت ِ ضرورت ، بعض اوقات ’وقت سے پہلے‘ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ دفاعی ایجنسیاں بھی اس کا مخاطب نہیں ہو سکتیں کیونکہ یہ وارننگ دفاعی ادارے کے ترجمان کی طرف سے ہی تو آئی تھی۔ چنانچہ اس امر میں کسی کوبھی مغالطہ نہیں ہے اس بیان کا مخاطب اعلیٰ عدلیہ ہے کیونکہ اُ ن کی طر ف سے امور ِ ریاست پر تقریباً بلاناغہ بیانات جاری ہوتے ہیں ۔ پھر یہ بیانات میڈیا کی ہیڈلائن بنتے ہیں اورپھر اینکر حضرات ان کی مو شگافیوں میں مصروف رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک اور دن طلوع ہو جاتا ہے․․․ اور سیسی پس (ایک یونانی کردار) ایک اور پتھر دھکیلنے کے لیے کمربستہ ہوجاتا ہے۔
کچھ سادہ لوح افراد اس بیان کا پس ِ منظر یہ سمجھ بیٹھے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر ” اسٹیبلشمنٹ “ پریشان ہے، حالانکہ چلے ہوئے کارتوس سے کون ڈرتا ہے؟سپریم کورٹ نے 1971 کی جنگ کے بعد جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دے دیا تھا مگر کیا اُس فیصلے نے دفاعی اداروں کی نیند حرام کر دی تھی؟وہ تو ماضی تھا مگر حال میں تو بہت کچھ کیا گیا ہے… سوات میں کامیاب ملٹری آپریشن، قبائلی علاقوں میں کارروائی اور انتہا پسندوں کو چیلنج کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا اور جس ہمت آزما نے ایسا کیا ہے ، کیا اُس کی توقیر نہیں کی جانی چاہئے؟ کم از کم میری ”عطائی “ نظروں کو تو یہی کچھ نظر آرہا ہے۔ اسلام آباد میں کسی جوڈیشل ریفرنس کی تیاری کی بھی بات ہورہی ہے۔ اسے کون دائر کرے گا؟نام تو کوئی نہیں لے رہا مگر جانتے سب ہی ہیں کہ کس کے ابروئے خم دار برہم ہوئے تھے۔ جس طرح ہنری دوئم نے اپنے مصاحبوں سے کہا تھا کہ مجھے ایسے پادری سے کون نجات دلائے گا ؟ لگتا ہے کہ یہی صورت ِ حال اسلام آباد میں بھی درپیش ہے ۔
جب عدلیہ کے سامنے صرف پی پی پی تھی تو اُس کو کوئی پروا نہ تھی کیونکہ آخر زرداری صاحب اُن کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاگیا اور ارسلان چوہدری کے معاملے کو اچھالا گیا ، کچھ سرمایہ کاری کی گئی مگر وہ وار بھی خالی گیا، کم ازکم اس وقت تک تو ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ اب ایک طویل قانونی طریق ِ کار شروع ہو گیا ہے۔ایک فرد پر مشتمل عدالتی کمیشن ان الزامات کی تفتیش کب تک کر لے گا، سب جانتے ہیں۔ یہ باتیں مختلف تھیں مگر دفاعی اداروں کے معاملات میں مداخلت کرنا ایسی ہی غلطی کے مترادف ہے جیسی نپولین بونا پارٹ سے وقت کے انتخاب اور ہٹلر سے بیک وقت بہت سے محاذ کھولنے کے حوالے سے ہوئی تھی۔ اکیلے زرداری صاحب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر ملک ریاض اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی شمولیت سے ایک خوفناک کولیشن وجود میں آگیا ہے۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ارسلان افتخار کیس کی بازگشت کم نہیں ہوئی ہے۔ اب اس معرکے پر کیا شکستہ زرہ بکتر میدان میں کام دے گی؟ملک ریاض صاحب، جو کچھ عرصہ قبل شکست خوردہ نظر آرہے تھے، اب پھر عزم ِ نو سے میدان میں کود چکے ہیں․․․ ان کو ہلا شیری کس نے دی ہے ؟
کیا اس خدشے کو صرف ژولیدہ فکری کا شکار افراد کے التباسات کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر جوڈیشل ریفرنس دائر ہو گا، پھر احتجاجی مظاہرے، پھر وکلا کی تحریک کے ہنگامے، لانگ مارچ ، جبکہ اس دوران بلوچستان اور کراچی سلگ رہے ہیں تو فضا ساز گار ہو چکی ہے؟کس کے لیے ساز گار؟ انتخابات کے لئے تو ہر گز نہیں۔ ہماری 65 سالہ تاریخ میں پہلا موقع آیا تھا کہ ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرکے انتخابات کی طر ف جارہی ہے۔ یہ بات درست لگتی ہے کہ اگر قسمت نہ ہو تو نہ جنگ راس آتی ہے اور نہ ہی امن۔ میں قنوطی نہیں ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے مقدر کا ستارہ یقیناً کسی فلک پر ہے مگر تاحال وہ کہیں پنہاں ہے ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تمام باتیں افواہیں ہی ہوں اور ان کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا ایک عمدہ باب شروع کرنے کے قریب ہوں اور آنے والے انتخابات نے ہمارے جمہوری اداروں کو تقویت دینی ہو اور ان سے ایک عمدہ جمہوری نظام کا تسلسل قائم ہونا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ کی طرف سے حدود سے تجاوز کرنے کی باتیں اور فوجی مداخلت کا خدشہ وقتی اور بے بنیاد ہو۔ آج ہمیں آئین اور قانون کی بالا دستی کی ضرورت ہے اور یہ بالا دستی تب ہی ممکن ہے جب بندوق کی طاقت اس کے ماتحت ہو۔ اپنی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب افراتفری کا عالم ہو تو ہم سے غلطی ہو جاتی ہے۔ آج وقت ہے کہ اُس غلطی سے اجتناب کیا جائے۔
تازہ ترین