• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے ابھی وزیراعظم کے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا کہ حزب اختلاف متحد ہوگئی ہے جس سے اب یہ لگنے لگا ہے کہ جیسے عمران خان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد واقعی انقلاب آنے والا ہے، کیونکہ سابق صدر اور سابق وزرائے اعظم کی پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے ساتھ دیگر جماعتوں نے اتحاد کرلیا ہے۔ عمران خان وقت کے ساتھ مقبول سے مقبول تر ہوتے جارہے ہیں یہ مقبولیت اُن کے پہلے خطاب کے ساتھ ہوئی،تقریر کافی سنجیدہ، سادہ اور متاثر کن تھی اور ہم جیسے لوگ جو ان کے انداز، تقریر پر اعتراض کرتے تھے وہ بھی اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے، پھر اُن کا یہ اعلان ہے کہ وہ نہ پروٹوکول لیں گے اور نہ کسی کو لینے دیں گے سے بھی اُن کی مقبولیت بڑھی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاوہ اپنے اس اعلان پر عملدرآمد کر پائیں گے کیونکہ اب توپروٹوکول ملنا شروع ہوگیا ہے۔ جبکہ حزب اختلاف کا اتنی جلدی منظم ہوجانا اور حزب اقتدار کی جماعت کا عہدوںکے بارےمیں فیصلے نہ کر پانا قیادت کی کمزوری کی علامت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیادت نے پہلے سے یہ فیصلہ نہیں کیا تھاکہ کون کس عہدےکا اہل ہے سوائے وزیرخزانہ کے جس کے بارے میں عمران خان پہلے سے طے کر چکے ہیں کہ وہ اسد عمر کو ملے گا، وہ اپنے بھائی سابق گورنر سندھ سے زیادہ قابل اور کم گو نظر آتے ہیں، اپوزیشن نے اپنی دوسری آل پارٹیز کانفرنس جو 2 اگست 2018ء کو ہوئی میں یہ فیصلہ کرلیا کہ عمران خان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کا نامزد کردہ امیدوارکرے ہوگا، تو اسپیکر قومی اسمبلی پیپلزپارٹی کا نامزد کردہ امیدوار اور ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ متحدہ مجلس عمل کا نامزد امیدوار سنبھالے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان وزیراعظم کے عہدے کے لئے ممبران کی جو تعداد ہونی چاہئے تھی حاصل کر پائے ہیں جیسا کہ وعویٰ کیا جا رہا ہے، البتہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے عمران خان کا ساتھ دینے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ ہمارے خیال میں ایم کیو ایم نے پہلی مرتبہ کوئی دانشمندی کا فیصلہ کیا ہے کہ اس نے دل پر پتھر رکھ کر اسی پارٹی کا ساتھ دینے اعلان کردیا جس نے اُن کی کراچی کی نشستیں جیت لی ہیں، مگر سیاست میں ایسی اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے یہ الیکشن بغیر اپنے سابقہ لیڈر اور اپنے بل بوتے پر جیتا ہے اور اس کے باوجود کہ اُن کی پارٹی میں کافی اکھاڑ بچھاڑ تھی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان جو تحریری معاہدہ ہوا ہے اس میں کراچی و حیدرآباد کے لئے اسپیشل پیکیج دینے، مردم شماری کے حوالے سے شہری آبادی کی جو تعداد کم کی گئی ہے اس پر غور کیا جائے گا اور اس میں تحریک انصاف ساتھ دے گی۔ کراچی میں جن حلقوں میں ایم کیو ایم کے تحفظات ہیں ان حلقوں کو دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ کراچی کے لوگوں کو ہمیشہ پی پی پی سے یہ شکایت ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے رہی ہے کہ کراچی کی آبادی کو کم کردیا جاتا ہے تاکہ ایک طبقہ کونمائندگی کم ملے، اگرچہ کراچی ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ کی آبادی کا شہر ہے مگر ظلم کی انتہا ہے کہ اس کو ایک کروڑ 75 لاکھ کی آبادی کا شہر بنا دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں اس میگا شہر کو وسائل بھی کم ملیں گے اور بہت محرومی کا شکار رہے گا، اس پر بات ہوئی کہ انتظامی یونٹ بنانے کی ضرورت ہے جبکہ پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ وہ جو منصوبہ بنار ہے ہیں اس کے تحت انتظامی یونٹ بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ وہ پی ٹی آئی کے پیکیج سے پوری ہوجائے گی۔ پی ٹی آئی کو یہ پہلی بڑی کامیابی ہے، اس کے بعد جی ڈی اے بھی عمران خان کے ساتھ جارہی ہے، سندھ کی ان دونوں پارٹیوں کو پی پی پی سے شکایت ہے کہ وہ دھاندلی سے جیتی ہے اور وہ کرپشن کو روک نہیں رہی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اے پی سی میں حزب اختلاف کے اکٹھا ہونے نے دوسری پارٹیوں کو عمران خان سے جڑ جانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بھی مسلم لیگ (ن) کے اثر کو کم کرنے کے لئے پی ٹی آئی سے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اس پر ابھی مذاکرات ہورہے ہیں۔ ق لیگ کے مطالبات زیادہ بھاری ہیں اور عمران خان ق لیگ کو اسپیکر پنجاب اسمبلی تک محدود کرکے اُن کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ق لیگ اس صورتِ حال میں یہ عہدہ بھی اس لئے قبول کرلے گی کیونکہ اس طرح وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جائے گی اور اس کے ذریعے اپنی بکھری ہوئی قوت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے، عام طور سے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ آزاد امیدوار حکومتی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تاکہ اُن کی اہمیت بڑھے مگر وہ بھی ضرورت سے زیادہ پھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اُن کے مطالبات کچھ زیادہ ہی ہیں لیکن کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن میں سے اکثر پہلے ہی پی ٹی آئی میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتے تھے البتہ آزاد امیدواروں نے کچھ زیادہ عمران خان سے امید لگا لی ہے۔ بہرحال قرین قیاس یہی ہے کہ عمران خان وزیراعظم کے لئے مطلوبہ ممبران کی حمایت حاصل کرلیں گے مگر اُن کو انتہائی سخت اپوزیشن کا سامنا ہے۔ پہلے اور اب میں یہ فرق ہے کہ ماضی کی حکومت اب اپوزیشن میں ہے، اُن کے پاس اچھے مقرر، تجربہ کار سیاستدان اور تیز و طرار قومی اسمبلی کے ممبران ہیں اور عمران خان کے ساتھ چند لوگوں کے سوا زیادہ تجربہ کار لوگ نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ تو کیا ہے کہ وہ اداروں کو مضبوط کریں گے اور پولیس کو جدید خطوط پر استوار کریں گے جیسا کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں کیا، اُن کے خیبرپختونخوا کی پولیس کی تعریف مسلم لیگ (ق) اور پھر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے برملا کی ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے مگر یہ سوال جواب طلب رہے گا کہ وہ پنجاب پولیس کو کیسے درست کریں گے، تاہم تبدیلی کے آثار سب جگہ نظر آرہے ہیں، آئی جی پنجاب پولیس نے بھاشا اور مہمند ڈیم کے لئے 12 کروڑ سے زیادہ رقم دینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس طرح انہوں نے فضا کو پنجاب پولیس کے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے مگر پنجاب پولیس میں بڑی تبدیلیوں کی گنجائش اور اصلاح کی سخت ضرورت ہے جو آئی جی پنجاب خود سے کرسکیں تو کرلیں، اسی طرح سندھ پولیس میں بھی ایسی ہی اصلاح کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی حکومت آنے سے لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے اور کئی لوگوں نے ٹیکس دینے کا ارادہ باندھ لیا ہے، ہزاروں نے ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے جمع کرائے ہیں، مزید برآںجو مخالف اتحاد بنا ہے اس میں کافی جان ہے اور وہ واقعی عمران خان کےلئے مشکلات پیدا کرنے میں دیر بھی نہیں لگائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین