• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کے سربرراہ عمران خان نے ملک میں بہتر طرز حکمرانی ( گڈ گورننس ) کے قیام کے وعدے پر ووٹ حاصل کئے ہیں ۔ اسلئے انہیں سب سے پہلا کام ’’ گڈ گورننس ریفارمز ‘‘ کیلئے کرنا ہو گا یعنی ایسی اصلاحات لانی ہوں گی ، جن سے بدترین طرز حکمرانی کا خاتمہ ہو اور لوگوں کا ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو ۔ ہر شہری کو احساس ہو کہ اس کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے اور اس کیساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو رہی ۔ یہ کام بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے
گڈ گورننس ریفارمز کا بنیادی ہدف یہ ہو کہ پاکستان کے اندر شفافیت اور میرٹ کا نظام قائم ہو ۔ ملک کی معاشی کارکردگی بہتر ہو اور سب سے اہم یہ ہے کہ لوگوں کی آمدنی میں بڑھتا ہوا فرق ختم ہو اور پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جا سکے ۔ ان ریفارمز ( اصلاحات ) کیلئے سب سے پہلے جو کام کرنا ہو گا ، وہ پاکستان کی سول سروس کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ ان اصلاحات پر عمل درآمد اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے ذمہ دار سول سرونٹس ہوتے ہیں ۔ میرٹ کے بغیر بھرتی ہونے والے اور سفارش کی بنیاد پر تقرریاں حاصل کرنے والی سول بیورو کریسی صرف کرپشن والانظام ہی چلا سکتی ہے اور پھر اس نظام کا تحفظ اس کے مخصوص مفاد سے منسلک ہوجاتا ہے ۔ گڈ گورننس ریفارمز کیلئے ضروری ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ایسی سول سروس ہو ، جو نہ صرف متحرک ، موثر اور باصلاحیت ہو بلکہ اس میں غلط کام کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کرنےکی ہمت اور صلاحیت ہو ۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مختلف آمرانہ اور جمہوری حکومتوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت سول سروس کو تباہ کیا ہے ۔ اب سول سروس انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کا متقاضی ہے ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد خصوصا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد جو لوگ اقتدار پر قابض ہوئے اور بعد ازاں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ( ہئیت مقتدرہ ) قرار پائے ، انہوں نے پاکستان میں سیاست اور سیاست دانوں کے خاتمے کے ایجنڈے پر کام شروع کیا اور اس کےلئے انہوں نے ورثے میں ملے ہوئے نو آبادیاتی سول سروس کے ڈھانچے کو استعمال کیا ، جو آج کے سول سروس کے ڈھانچے سے بہت بہتر تھا ۔ یہ اور بات تھی کہ اس کا نو آبادیاتی جوہر ختم کرنے کیلئے اس میں کچھ اصلاحات کی ضرورت تھی ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے سول بیورو کریسی کو سیاست اور سیاست دانوں کے مقابلے میں ایک فریق بنا دیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بیورو کریسی ہی اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور ترین حصہ بن گئی ، جسے سیاست دانوں نے ’’ افسر شاہی ‘‘ کا نام دیا ۔ افسر شاہی کے خلاف سیاست دانوں نے شدید نفرت پیدا کی ، جس کا اس وقت کے حالات میں ایک جواز بھی تھا ۔ سول بیورو کریسی میں میرٹ اور شفافیت ختم ہو گئی تھی اور سفارش کلچر جنم لے چکا تھا ۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ حقیقت بیان کرنا پڑ رہی ہے کہ سول بیورو کریسی پر سب سے کاری ضرب ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں لگی ، جب بچے کچے اہل اور ایماندار بیورو کریٹس کو ایک طرف دھکیل دیا گیا اور میرٹ کے بغیر افسروں کی بھرتیاں اور تقرریاں ہونے لگیں ۔ اسکے بعد یہ سلسلہ آنیوالی آمرانہ اور جمہوری حکومتوں میں بھی جاری رہا ۔ سب سے زیادہ نقصان اس صورت میں ہوا کہ سول بیورو کریٹس کی بھرتی کیلئے امتحانات لینے والے ادارے یعنی پبلک سروس کمیشنز میں شفافیت نہ رہی ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ سول بیورو کریٹس کو کسی سیاسی جماعت یا کسی شخصیت کیساتھ وابستگی کے ذریعے شناخت کیا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کی یہ وابستگی نہیں ہے ، ان کے ڈانڈے اور زیادہ طاقتور سے ملتے ہیں ۔ کامیاب بیورو کریٹ وہ ہے ، جو ’’ اچھی تقرریاں ‘‘ حاصل کر سکتا ہے ۔ ان حالات میں بہتر طرز حکمرانی ( گڈ گورننس ) کا قیام ایک دیوانے کا خواب ہے ۔
اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اہم ریاستی اداروں خصوصا خود مختار اور نیم خود مختار اداروں ، کارپوریشنز اور بورڈز وغیرہ کے سربراہوں کی حیثیت سے حکمرانوں کے من پسند افراد بیورو کریٹس اور نان بیورو کریٹس کی تقرری ہوئی ہے ۔ منصوبہ بندی اور ترقی کے اداروں پر بھی ایسے ہی لوگوں کا قبضہ ہوتا ہے ۔ پاکستان میں ترقیاتی منصوبے پاکستان کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ اداروں پر قابض لوگوں کے مخصوص مفادات کے تحت بنتے ہیں ۔ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیاں بھی اپنی مفادات کے تابع ہوتی ہیں ۔ اداروں میں بہتری لانے کے نام پر ’’ اسمارٹ ‘‘ لوگ صرف لوٹ مار کررہے ہوتے ہیں ۔ بدترین طرز حکمرانی کا ایک ایسا نظام وضع ہو گیا ہے ، جس کی حفاظت ( جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں ) کرپٹ سول سرونٹس اور نام نہاد ’’ کارپوریٹیئے ‘‘ کرتے ہیں ۔ ان کی سرپرستی سیاسی حکمراں یا دیگر طاقتور عناصر کرتے ہیں ۔
ان حالات میں سب سے پہلے عمران خان کو سول سروس کے ڈھانچے کو بہتر بنانا ہو گا ۔ فوری طور پر پہلا کام یہ کیا جاسکتاہے کہ نچلے گریڈ کے افسر کی اوپر والے گریڈ ( او پی ایس ) میں تقرری پر پابندی کا آرڈر جاری کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ نان کیڈر پوسٹنگ کو بھی ختم کیا جائے ۔ تقرری کرنے والی اتھارٹی کو اوپر سے حکم دینے ، اسے سفارش کرنے یا اس پر دباؤ ڈالنے کو ایک جرم قرار دیا جائے ۔ وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری کو اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری اپنے نیچے کے افسروں کو تبادلوں اور تقرریوں کیلئے نہ کہے ۔ ہر اتھارٹی اپنی مرضی کے مطابق تبادلے و تقرریاں کرنے اور اپنی وزارت یا شعبے کی کارکردگی کی ذمہ دار ہو ۔ وزرا ، ارکان اسمبلی یا پارٹی عہدیداروں کی پرچیوں کا کلچر ختم ہونا چاہئے ۔ یہی نظام صوبوں میں بھی رائج ہو ۔ وزیر اعلیٰ تبادلوں اور تقرریوں کیلئے چیف سیکریٹری کو ڈکٹیٹ نہ کرے اور چیف سیکرٹری نیچے کی اتھارٹیز پر دباؤ نہ ڈالے ۔ تبادلے و تقرریاں کرنیوالی اتھارٹیز اگر رشوت یا کرپشن میں ملوث ہوں تو اوپروالی اتھارٹیز کو ان کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار ہونا چاہئے۔ میرٹ اور شفافیت کیلئے نیچے والوں کو بااختیار بنانا ہو گا ۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے اوپر والوں کو اختیارات دینا ہونگے ۔ کسی کے اختیارات میں سیاسی مداخلت نہ ہو ۔ ان فوری اقدامات سے سول بیورو کریسی کو ’’ آرڈر ‘‘ ( ضابطے ) میں لانے کا آغاز ہو سکتا ہے ۔
اسکے بعد سول سروس اسٹرکچر میں اصلاحات کیلئےباقاعدہ طور پرایک ٹیم تشکیل دی جائے ۔ اس حوالے سے پہلے بہت کام ہو چکا ہے ۔ اس کام کویکجا کرنے اور اس میں سے فوری طور پر قابل عمل اصلاحات کا فریم ورک وضع کر لینا چاہئے ۔ اس کیلئے درکار قانون سازی بھی فوری طور پر کرلینی چاہئے ۔ اس کام کیلئے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا ہدف رکھا جائے ۔ اس سے پہلے مذکورہ بالا اقدامات کی مانیٹرنگ جاری رہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کے اہم اداروں کے سربراہوں کے تقرر کے مسئلے کو بھی ہمیشہ کیلئے حل کر لیا جائے ۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے موثر لوگوںکی نظریں ان اداروں پر ہوتی ہیں ۔
امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے زیادہ تر جمہوری ممالک میں اس حوالے سے ایک نظام وضع کیا گیا ہے ۔ اہم ریاستی اور حکومتی اداروں کے سربراہوں اور بعض دیگر اہم عہدوں پر حکمراں سیاسی جماعت کے لوگوں کی تقرری کی جاتی ہے یا حکمراں سیاسی جماعت کو اس تقرری کا اختیار دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے وہاں قوانین موجود ہیں ۔ ہر عہدے پر تقرری کے اہلیت اور تعلیم کے معیارمقرر ہیں ۔ حکمراں سیاسی جماعتیں جن لوگوں کا وہاں تقرر کرتی ہیں ، وہ مکمل طور پر ان عہدوں کیلئے اہل ہوتے ہیں ۔ہر ادارے میں پالیسی اینڈ پلاننگ بورڈز ہوتے ہیں ، جو ان منصوبوں یا پالیسیوں کی منظوری دیتے ہیں ۔ ’’ اسمارٹ ، اوور اسمارٹ یا کارپوریٹئے‘‘ انہیں اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتے اور نہ ہی ان لوگوں کی ڈوریں طاقتور سیاسی یا غیر سیاسی عناصر ہلا سکتے ہیں ۔
عمران خان کو اگر بہتر طرز حکمرانی کیلئے اصلاحات کا آغاز کرنا ہے اور بہتر طرز حکمرانی کے مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنا ہیں تو انہیں فوری طور پر سول سروس کو ضابطے میں لانے کے احکامات جاری کرنا ہونگے ۔ سول سروس میں اصلاحات کا ایجنڈا مرتب کرنا ہو گا اور اہم اداروں میں اعلی عہدوں پر تقرریوں کیلئے شفافیت اور میرٹ پر مبنی نظام لانے کی غرض سے قانون سازی کرنا ہو گی ۔ یہ کام چھ ماہ کے اندر ہونا چاہئے کیونکہ ایک سال میں لوگوں نے تبدیلی محسوس نہ کی تو پھر نہ صرف لوگوں میں فرسٹریشن پھیلے گا بلکہ سول سروس کا موجودہ نظام تحریک انصاف کے سارے ایجنڈے کو ناقابل عمل بنا دے گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk

تازہ ترین