• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے بھارت نواز سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کا انیسواں یوم تاسیس منایا گیا- یہ تقریب جسے پارٹی کی طرف سے ایک’ بڑا عوامی اجتماع‘ قرار دیا گیا ایک انڈور اسٹیڈیم میں منعقد کی گئی۔ جس میں چند سو افراد کو ریاست کے طول و عرض سے جمع کرکے لایا گیا تھا- ان میں سے کئی یا تو دیہاڑی پر لائے گئے تھے یا وہ پارٹی ورکر تھے جنہوں نے سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کی آڑ میں لوگوں سے رشوتیں لی ہیں اور اب ان سے جان بچاتے پھر رہے ہیں- اس کے علاوہ انہیں آزادی پسند جنگوؤں کی طرف سے بھی ہر وقت جان کا کھٹکا لگا رہتا ہے- تقریب کے اختتام پر جو تصاویر سامنے آئیں ان میں کئی نمایاں طور پر فوٹوشاپ کا سہارا لیا گیا تھا- مگر یہ کام اس قدر بھونڈے طریقے سے کیا گیا تھا کہ اس میںکئی کے غیرمرئی مخلوق ہونے کا گمان ہو رہا تھا- اس سے قطع نظر یہ اجلاس ہر لحاظ سے قطعی طورپر ناکام رہا- اول تو یہ کہ کرائے کے لوگوں پر انحصار کرنے کے باوجود حاضری معمولی رہی اور اس پر مستزاد یہ کہ کئی سینئر رہنما بھی غائب تھے- ان کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ نہ صرف یہ کہ اکیلئے پنی قیادت سے نالاں ہیں بلکہ پارٹی توڑ کر یا چھوڑ کر ایک نئے آقا کی تلاش میں ہیں- اب ھی تک جو خبریں گردش کر رہی ہیں ان کے مطابق پارٹی کے 28 قانون ساز اسمبلی کے ممبران میں سے کم از کم آدھے بغاوت کیلئے تیّار ہیں اور وہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ حکومت بنانے کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں- اب تک کم از کم پانچ افراد نے کھل کر بغاوت کا اعلان کردیا ہے اور کئی اور موقع کی تاک میں ہیں-
یوم تاسیس کے موقعے پر پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک لایعنی قسم کا خطاب بھی کیا اور اس دوران گریہ و زاری کا بہت بڑا تماشا بھی کیا اور حالیہ دنوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار بھی کیا- مفتی نے اپنے بیس سالہ سیاسی کیریئر میں رونے دھونے کا بے پناہ مظاہرہ کیا ہے اور اس سے بے انتہا فائدہ بھی اٹھایا ہے- 1990ء کے وسط میں جب آپ نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو رونا ہی آپ کی پہچان بنا- جہاں کہیں بھی کسی کشمیری کو فوج یا نیم فوجی دستوں کی جانب سے قتل کیا جاتا تھا تو محبوبہ مفتی تعزیت کے بہانے وہاں پہنچ جاتی تھیں اور غم کا وہ مظاہرہ کرتی تھیں کہ لواحقین بھی دنگ رہ جاتے تھے- سیاست کے اپنے اولین پانچ سالوں میں مفتی نے بلا مبالغہ جاں بحق ہونے والے سینکڑوں جنگجوؤں اور سویلین کی تعزیت کی اور ہر جگہ اپنے رونے کے اسٹائل کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں- یہی وجہ ہے لوگ انہیں ’رودالی‘ کے نام سے یاد کرنے لگے- راجستھان کے کچھ علاقوں میں رودالی نچلی ذات کی ان پیشہ ور رونے والی عورتوں کو کہتے ہیں جنہیں کسی اونچی ذات کے مرد کی وفات پر رونے کیلئے بلایا جاتا ہے- 1993ء میں بالی ووڈ میں بننے والی فلم ’رودالی‘ کی وجہ سے اب یہ نام زبان زد عام ہوگیا ہے-
مفتی کا حالیہ رونا دھونا اگرچہ ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا مگر اپنے دور حکومت میں لوگوں کے تئیں ان کے جابرانہ طرز عمل اور معاندانہ رویئے سے وہ اس قدرپہچانی جاچکی ہیں کہ اب ان کے کھیل تماشے شاذ ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ ان کی جماعت کے یوم تاسیس پر ہونے والی خامہ فرمائی اور بین تماشے کو یہاں کے لوگوں نے در خور اعتناء نہیں سمجھا- سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے مفتی کو انتہائی سخت الفاظ میں رگیدا اور ان کے رونے کو ’’مگرمچھ‘‘ کے آنسو قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور یہ پیشیں گوئی کی کہ اب کشمیری ان کے جال میں نہیں پھنسیں گے- فاروق عبداللہ نے بتایا: ’’محبوبہ مفتی کا تازہ ڈرامہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے- اب یہاں ان کے مگرمچھ کے آنسوؤں کا کوئی خریدار نہیں ہے- یہاں کے لوگوں کو بہت اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے دور حکومت میں کس طرح انہوں نے کشمیریوں کی تذلیل کی اور ہر موڑپر انہیں رسوا اور ذلیل کیا‘‘- کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے محبوبہ مفتی سخت پریشانی اور سکتے کے عالم میں ہیں اورہوسکتا ہے کہ وہ ذہنی امراض کا شکار بھی ہو گئی ہوں اسی لئے عوام کے سامنے رونے سے وہ تسکین حاصل کرنا چاہتی ہیں-
چھ ہفتے قبل جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کی حکومت تھی جو ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ شراکت داری میں چلا رہی تھیں- یہ ساجھے داری لگ بھگ تین سال تک قائم رہی جس دوران کشمیر میں ظلم و تشدد اور قتل و غارتگری میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں بیس ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو زخمی کردیا گیا جن میں جنگلی جانوروں کے شکار میں استعمال ہونے والی پیلیٹ بندوقوں کے ذریعے ہزاروں کو اندھا بھی کردیا گیا- سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں خاص کر نوجوانوں کو ہلاک کردیا گیا- اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں خاص کر طلبہ اور کمسن بچوں تک کو بھی گرفتار کرلیا گیاجو اب جیل میں قید ہیں- ان روح فرسا حالات کیوجہ سے یہاں کے جوانوں کی ایک خاصی تعداد کو ایک بار پھر بندوق اٹھاکر بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کی ترغیب ملی- اگرچہ اس قسم کے رحجان سے کسی بھی طرح کے خیر کے برآمد ہونے کی توقع غیر حقیقت پسندانہ ہے مگر جولائی 2016ء میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی
وفات کے بعد اب تک لگ بھگ ایک ہزار نوجوان آزادی پسند عسکریت میں شامل ہوگئے ہیں- ان میں سے پچھلے دو سالوں میں پانچ سو سے زائد نوجوان فوج اور پولیس کیساتھ جھڑپوں میں جاں بحق ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے- ان نوجوانوں میں اکثریت اعلی تعلیم یافتہ کی ہے جو اپنے ماحول میں ہونے والے سرکاری جبر و تشدد سے تنگ آکر بندوق اٹھانے پر مجبورہوگئے ہیں- اگرچہ بھارتی حکومت کی طرف سے مسلح بغاوت کو دبانے کے بار بار دعوے کئے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ قتل و غارتگری کی انتہا کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں- چند ماہ قبل فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کشمیر کے حالات کا کوئی فوجی حل نہیں ہے- یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ اب محبوبہ مفتی بھی اس بات کا برملا اعتراف کر رہی ہیں کہ جبر و تشدد اور زبردستی سے معاملات کو حل نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں انہوںنے کشمیری عوام کو زیر کرنے کیلئے ان پر ہر قسم کا جبر اور ظلم روا رکھا- یہی نہیں بلکہ انہوں نے اور ان کے بے شرم حواریوں نے اس ظلم و جبر کی تائید میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیئے- اب جبکہ مفتی کی حکومت ختم ہوگئی ہے انہیں دوبارہ کشمیر میں ظلم ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس پر وہ کھلے عام دو بارہ سے گریہ و زاری کرتی نظر آ رہی ہیں-
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین