• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالی ووڈ کے سپر اسٹار نصیر الدین شاہ سے قطر میں پاکستان کے سفیر سرفراز خانزادہ نے پوچھا ”دوحہ قطر سے آپ بمبئی واپس جائیں گے یا کہیں اور جانے کا ارادہ ہے ؟“
نصیر الدین شاہ نے جواب دیا ” ہم یہاں سے سیدھا لاہور جا رہے ہیں !“خانزادہ نے پوچھا ”صرف لاہور یا پاکستان کے کسی دوسرے شہر بھی جائیں گے ؟”نصیر الدین شاہ نے کہا “ مجھے لاہور بے حد پسند ہے میں اس شہر میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتا ہوں، چنانچہ لاہور ہی سے واپس بمبئی چلا جاؤں گا ! پاکستانی سفارتخانے کے ڈائننگ ہال کی اس سینٹرل ٹیبل پر قطر میں بھارت کے سفیر سنجیو اروڑا بھی موجود تھے ، ان کے اندر بھی ایک ”لاہوریا“ کہیں چھپا بیٹھا ہے،اسکی وضاحت آگے چل کر کروں گا ، چنانچہ وہ بھی لاہور کی اس تحسین پر میری ہی طرح خوش نظر آ رہے تھے ۔
ہم لوگ مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کی تقریبات سے فراغت کے اگلے روز پاکستانی سفیر سرفراز خانزادہ کی طرف سے دیئے گئے ظہرانے میں موجود تھے ، مجلس کی طرف سے ہر سال لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ایک ہندوستانی اور ایک پاکستان کو دیا جاتا ہے اس سال پاکستانی ادیبوں میں سے اس ایوارڈ کا ”قرعہ فال “ میرے نام نکلا جبکہ ہندوستان سے ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار شموئیل احمد کو یہ اعزاز حاصل ہوا ۔ ہندوستانی ایوارڈ کا فیصلہ کرنے والی جیوری کے چیئرمین ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تھے جبکہ پاکستانی جیوری کے چیئرمین جناب مشتاق احمد یوسفی تھے ۔ نصیر الدین شاہ کو اردو زبان کے فروغ کے حوالے سے خصوصی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شموئیل احمد کے فن اور شخصیت پر اظہار خیال کے لئے ہندوستان سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور راقم الحروف کے بارے میں گفتگو کے لئے پاکستان سے ڈاکٹر خورشید رضوی کو مدعو کیا گیا تھا ، تاہم ڈاکٹر نارنگ نے شموئیل احمد کے علاوہ میرے بارے میں بہت کچھ کہا اور سچی بات یہ ہے اس سے کچھ زیادہ ہی کہا جس کا میں مستحق تھا۔میں آپ کو شموئیل احمد کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں، ہندوستان کا یہ کم گو افسانہ نگار اپنے افسانوں میں بہت کچھ کہتا ہے تاہم اسے پاکستان کے ادبی جریدوں کے مدیران سے گلہ ہے کہ اس کے افسانوں کا ” ختنہ “ کر دیا جاتا ہے ، چنانچہ وہ یہاں بہت کم چھپا ہے ، میں نے دوحہ میں چار روزہ قیام کے دوران اس کا افسانوی مجموعہ ” عنکبوت ، اور ایک ناولٹ ”ندی “ پڑھا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ یقینا ہندوستان اور پاکستان کے افسانہ نگاروں کی صف اول میں نشست کا حقدار ہے ۔ البتہ اس کا ناول کچھ باتیں بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے ” ڈریگ“ کرتا نظر آیا ، یہ ایک بے حد حساس لڑکی کی کہانی ہے جس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جن کے مزاج کا دھارا ایک دوسرے سے کہیں بھی جاکر نہیں ملتا، تاہم یہ موضوع ایک افسانے کا تھا، جسے ناول تک بڑھا دیا گیا، لیکن اس سے قطع نظر جزئیات نگاری، کردار نگاری ، نفسیاتی ژرف بینی اور کہانی سناتے وقت قاری کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھنے کا ہنر شموئیل احمد کو قدرت کی طرف سے کچھ زیادہ ہی ودیعت ہوا ہے !
باقی رہا تقریب کا احوال ، تو وہ سننے یا پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کی چیز تھی، اس کا ڈیکورم اور پروٹوکول نوبل پرائز کی تقریب سے کم نہیں تھا، مگر اردو کمزور اقوام کی زبان ہے اور یوں اس سے متعلق کسی بھی چیز کا موازنہ طاقتور اقوام سے نہیں کیا جا سکتا، پنجابی کے ایک محاورہ کا مفہوم ہے کہ جس کے گھر میں گندم کے ڈھیر ہوں ، اس کے احمق لوگ بھی عقلمند سمجھے جاتے ہیں !اقبال یہ بات ہے مرگ ضعیفی کی سزا مرگ مناجات کی صورت میں کہتا ہے ۔ اس کے باوجود مجلس کے چیئرمین محمد عتیق، ان کے رفقاء اور اہالیان قطر کو دلی مبارکباد دی جاسکتی ہے کہ شدید نامساعد حالات کے باوجود وہ یہ سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں جس کی بنیاد ملک مصیب الرحمان جیسے درویش صفت انسان نے رکھی تھی ملک صاحب کی وفات کے بعد دلوں میں یہ اندیشہ پیدا ہوا تھا کہ شاید یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکے لیکن محمد عتیق صاحب نے اپنے مقامی رفقاء خصوصاً سید فہیم الدین، اعجاز حیدر جاوید ہمایوں اور فرتاش سید کی معاونت سے اس عظیم ادبی خدمت کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا ۔ ادھر لاہور میں داؤد ملک جیسے مخلص دوست ان کی ہمت بڑھانے میں لگے رہتے ہیں لاہور کا مورچہ انہوں نے سنبھال رکھا ہے اور یوں یہ ایوارڈ اب سولہویں سال میں قدم رکھ چکا ہے، ہماری اردو شاعری میں سولہ کے سن کا بہت شہرہ ہے، دیکھیں اسے کہیں شاعروں کی نظر نہ لگ جائے !
مگر نظر کیوں لگے گی؟ کیونکہ مجلس شاعروں کو کبھی نظرانداز نہیں کرتی، ایوارڈ کی تقریب کے ساتھ ہر سال ایک عظیم الشان کل پاک وہند مشاعرہ بھی ہوتا ہے جو اس برس بھی ہوا جس کی صدارت پاکستان کے نامور شاعر ، محقق، نقاد اور ادبی حلقوں کی انتہائی محترم شخصیت ڈاکٹر خورشید رضوی نے کی ۔ نظامت حسب معمول اپنے اسلم کولسری کی تھی جس کی لطیف باتیں ان کے لطیف جذبات کی حامل شاعری ہی کا عکس ہوتی ہیں، مجلس ہر سال ایک نہایت اعلیٰ درجے کا مجلہ بھی شائع کرتی ہے جو ایوارڈ یافتگان کی ادبی خدمات اور ان کی یاد گار تصویروں پر مشتمل ہوتا ہے اس مجلے کی ادارت کا فریضہ بھی اسلم کولسری اور داؤد ملک کے سپرد ہے اور یہ دونوں دوست بہت جانفشانی سے اسے مرتب کرتے ہیں اور یوں اسے ایک یادگار حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ مشاعرے میں مہمان خصوصی قطر کے وزیر ثقافت اور مہمانِ اعزاز نصیر الدین شاہ تھے ۔ شیرٹین ہوٹل کے ہال میں ایک ہزار کے لگ بھگ حاضرین جمع تھے جو بہت اچھے سامع تھے، تاہم دوبئی سے آئے ہوئے سید صلاح الدین کو بہترین سامع کا ایوارڈ دیا جا سکتا ہے کہ ان کی ہر موقع پر داد کی اولیت نے مشاعرہ بیٹھنے نہیں دیا۔ اور ہاں مشاعرے میں سفیر پاکستان جناب سرفراز خانزادہ اور سفیر ہند جناب سنجیو اروڑا نے بھی خیر مقدمی کلمات کہے، پاکستانی سفیر نے تو شاندار اردو بولنا ہی تھی یہاں تو سفیر ہند نے بھی کمال کر دیا، ان کا لہجہ ا گرچہ خالص لاہور لہجہ تھا جس کی بناء پر میں نے انہیں ”لاہوریا “ قرار دیا لیکن ان کی اردو اور اردو رباعیات نے مجمع لوٹ لیا۔
اردو ادب سے یہ شغف انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملا۔
دوحہ میں بہت خوبیاں ہیں ، میں یہاں 1982ء سے آ رہا ہوں مگر یہ شہر کچھ برسوں سے مجھے بہت اداس بھی کرتا ہے ۔ یہاں مجھے ملک مصیب الرحمان نظر نہیں آتا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے لاہور میں آسودہ خاک کیا تھا ۔ یہاں کی ادبی سرگرمیوں کی پہچان عبدالحمید بھی ہے جو کبھی عبدالحمید الفتاح کہلاتا تھا ۔وہ اپنے کاروبار سے محروم ہو چکا ہے اور فالج کے حملے کے بعد اب وہ روبصحت ہے مگر فعال نہیں ہے ۔ دوحہ کی پہچان قاضی محمد اصغر سے بھی ہے، مگر وہ کئی ماہ سے پاکستان میں دل تھامے بیٹھا ہے ۔ اور یہاں میرا ایک دوست افضل شیخ ہے جو پاکستانی سفارتخانے میں قونصلر ہے، وہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی دوحہ آمد پر ان کی آؤ بھگت میں مشغول رہا کہ اس طرح تو ہوتا ہے …!
سو دوحہ ہر سال اداس تو کرتا ہے مگر اس دفعہ اس نے کچھ زیادہ ہی اداس کیا، دوحہ ڈیئر ! تم ادب کی حفاظت کرتے ہو، میرے ادب دوستوں کی حفاظت بھی کرو!
تازہ ترین