• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بلوچستان کی آئندہ حکومت کےلئے اقتدار پھولوں کی سیج یا۔۔؟

انتخابات کاموسم گزرچکا۔۔ اب مرحلہ ہے حکومت سازی کا۔۔مرکز اور خیبرپختونخواہ میں تو واضح ہوگیا کہ پاکستان تحریک انصاف ہم خیال جماعتوں کےساتھ مل کر حکومت بنالےگی، اب اس کی نظریں پنجاب پر ہیں اور لگتایہی ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان میں بننےوالی مخلوط حکومت میں بھی شامل ہوجائےگی۔

حکومت سازی کامرحلہ جو چند دنوں میں مکمل ہوجائےگا،اس کےنتیجے میں بلوچستان میں کون سی جماعتیں حکومت کاحصہ بنتی ہیں اور ان میں سے کون صوبے کاوزیراعلیٰ منتخب ہوتاہے۔اس کاتعین بھی چند روز کی بات ہےمگر اب دیکھنایہ ہے کہ جو جماعتیں بھی صوبےمیں اقتدارمیں آئیں انہیں کن مسائل اورچیلنجزکاسامنا کرنا ہوگا اور آئندہ مخلوط حکومت اور وزیراعلیٰ ان مسائل اور چیلنجزسے کیسے نمٹتے ہیں ؟

وفاقی حکومت کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہوں گے ان سے قطع نظر اگر صرف بلوچستان کی بات کی جائے تو ان میں سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کارہاہےجس کااندازہ انتخابات کےمہینے یعنی جولائی میں ہونے والے دہشت گردی کےواقعات اور خاص انتخابات کے دن ہونےوالےالمناک واقعہ سے بخوبی ہوگیاہے۔

ان واقعات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آئندہ بھی دہشت گردی ایک خطرہ کی صورت موجود رہے گی ۔ اس کےعلاوہ بھی اندرون صوبہ تخریب کاری کےواقعات رونما ء ہوتے رہےہیں۔ان واقعات میں قانون نافذکرنےوالے اداروں کےاہلکاروں کو بھی نشانہ بنایاگیا۔

پھر بلوچستان میں صحت،تعلیم،بنیادی انفراسٹرکچر ،روزگار سمیت مختلف مسائل تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن ان کےعلاوہ صوبے میں جو مسئلہ فوری طور پر ابھر کرسامنے آیا ہے وہ پینے کےپانی کابحران ہے۔ پینے کےپانی کےبحران کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہےاور پچاس فیصد کےقریب شہری روزمرہ ضرورت اور استعمال کےلئے پینےکاپانی خرید کرپینے پر مجبور ہیں۔

وجہ یہی ہے کہ پینےکےپانی کی فراہمی کاذمہ دار ادارہ ۔۔ واسا ۔۔ اپنی ذمہ داری پورے کرنےمیں یکسرناکام ہوگیاہے، ہاں،اس کی وجوہات ہیں جن میں برف باری اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح کاگرنا اور واسا کےبیشترٹیوب ویلوں کاخشک ہوجاناہے۔

اب اس مسئلہ سے کس طرح سے نمٹنا ہے کہ آئندہ حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔رہ گئی بات تعلیم اور صحت کےشعبے سے متعلق مسائل کی تو ان شعبوں میں گذشتہ دور میں کوشش کے باوجود کوئی خاطرخواہ بہتری نہیں آسکی۔اس کااندازہ لگانے کےلئے یہی کافی ہے کہ صوبے کے بیشتر اسکولوں میں طالب علم آج بھی پینے کے پانی،چھت،بیت الخلاء سمیت دیگر تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں ۔

صوبے کےایک ہزار800 پرائمری اسکول آج بھی بغیر چھت کے قائم ہیں، 75فیصد اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود نہیں جبکہ60فیصد اسکولوں میں بیت الخلا کا انتظام نہیں، پانچ ہزارایسے اسکول ہیں جو ایک استاد، ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔

گزشتہ دور میں بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں ریکارڈ اضافے کے باوجود صوبے کی 12ہزار آبادیاں ایسی ہیں جہاں اب تک اسکول ہی نہیں ہےجبکہ اب بھی صوبے میں دس لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں اسکولوں سے باہر ہیںاوراگر صحت کےشعبے کی بات کی جائے تو گزشتہ دور میں خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود صحت کےشعبےکا یہ حال ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں معیاری طبی سہولیات کا فقدان ،ادویات کی کمی ،ضروری آلات و مشنیر ی کی عدم دستیابی کی شکایات عام ہیں۔

صوبےکےنصف سے زائد اضلاع میں یاتو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال ہی موجود نہیں یاجہاں ہیں وہاں مطلوبہ طبی عملہ اور سہولیات میسر نہیں۔صحت کے شعبہ کی کسمپرسی کااندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ دوران زچگی ماوں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ملک بھر میں سب سےزیادہ بلوچستان میں ہے۔

یہ تو وہ چیدہ چیدہ مسائل ہیں جو کہ آئندہ حکومت کو درپیش ہوں گےاور جنہیں حل کرنا بہرحال حکومت کی اولین ذمہ داری ہوگی۔

اس بناء پر بلوچستان کےعوام کےلئے یقینا ًیہ معنی نہیں رکھتا کہ بلوچستان میں کون سی جماعتیں اگلی حکومت میں شامل ہوں گی اور کون سی حزب اختلاف میں،کون قائد ایوان کےمنصب پر فائز ہوگا اور کس کو قائد حزب اختلاف کی ذمہ داری ملےگی ؟

صوبے کے عوام کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ اقتدارمیں شامل ہونےوالی جماعتیں اور نئےوزیراعلیٰ صوبے میں امن وامان کیسے قائم کرتے ہیں اور وہ بےروزگاری،مہنگائی کےساتھ ساتھ پینے کے پانی،تعلیم ،صحت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کے حل کے لئے کیاکرتے ہیں؟

عوام کو امید ہے کہ اب محض دعوے اور نعرے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں کام ہوگا۔اس بناء پر صوبے میں سیاسی مبصرین اور سماجی حلقوں کاکہنا ہے کہ صوبے کےمسائل کےپیش نظر آئندہ بننےوالی حکومت کےلئے اقتدار بہرحال پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین