• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں شہباز شریف نے فرمایا ہے: میں اسلامی سوشلسٹ ہوں آنے والا کل ن لیگ کا ہو گا۔
دونوں بڑی پارٹیوں کی مفاہمت تو دیکھئے کہ بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ شہباز شریف اسلامی سوشلزم پر ایمان لے آئے، اور خود کو برسرِعام اسلامی سوشلسٹ قرار دے دیا، گویا آنے والا کل مسلم لیگ نون کا ہو یا پیپلز پارٹی کا ایک ہی بات ہے، اب نکے میاں صاحب بیک وقت قائداعظم اور بھٹو کے جانشین ٹھہرے، اور نواز شریف اپنی پارٹی کے اس مفاہمانہ بلکہ شاملاٹ موٴقف کی تردید بھی نہیں کرسکیں گے، شہباز شریف اسلامی سوشلسٹ ہیں تو کم از کم ”آنے والا کل ن لیگ کا ہو گا“ کہنے سے پہلے انشاء اللہ تو کہہ دیتے۔
اسلامی سوشلزم سے کفر و اسلام دونوں کی روح کو تکلیف پہنچی ہو گی، لینن اور مارکس عالم ارواح میں گلے لگ کر روئے ہوں گے، دو متضاد نظاموں کو ملانا کیا کوئی کم کارنامہ ہے، خدا نہ کرے کل کلاں کو کوئی یہ کہہ دے اسلامی کفر، ایک شمشاد قد مردِ دانا نے ہم سے کہا تھا زندگی احتیاط کا نام ہے، لیکن جہاں مفاہمت ہو وہاں پھر کیسی احتیاط اور کیا خلط ِمبحث؟ جانے دیں ابھی تو آغاز ہے آنے والے کل کو اپنا بنانے کے لئے اللہ جانے میاں صاحبان کو کیا کیا بے جوڑ تراکیب ایجاد کرنا پڑیں گی، اسلامی صہیونیت بھی اچھا نعرہ ہے، اسلامی عیسائیت بھی کچھ کم بہتر نہیں، لیکن یہ احتیاط رہے کہ مچھلی کھانے کے فوراً بعد دودھ پینے سے انسان چتکبرا ہو جاتا ہے، کسی ڈینگی مچھر نے میاں صاحب کو بددعا تو نہیں دے دی کہ وہ اسلام اور سوشلزم کو ملا کر آنے والے کل پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور لیلائے اقتدار سے مخاطب ہیں
ہم نے کیا کیا نہ کیا تیری الفت میں صنم

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں نے دعویٰ کر دیا ہے کہ چند ماہ کی بات ہے ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہو گی۔ حکمرانوں نے ملک کو بکاؤ مال سمجھ رکھا ہے۔ یہ ہوئی نہ سیاست سے انصاف کی بات کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
ہم تو پہلے ہی خان صاحب کی آواز کو فرشتوں کی آواز سمجھتے ہیں، بھلا انکار کی کیا مجال، لیکن خیال رہے کہ فرشتے عربی بولتے ہیں کہیں انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ بس چند سیٹیں ہی ملیں گی، اس لئے بیمارِ سیاست کا حال اچھا ہے۔ اگر یہ مملکت خدادادِ پاکستان بکاؤ مال ہوتا تو کیا اب تک زرداری اسے بیچ کر سوئس اکاؤنٹ میں جمع نہ کرا چکے ہوتے، اور ہماری سپریم کورٹ لوٹی ہوئی دولت واپس لاتے لاتے ملک کی تلاش میں نکل پڑتی، پاکستان تو قائم رہے گا البتہ اس کے اجارہ داروں، دعویداروں اور جملہ سیاسی غیر سیاسی خرکاروں کی بہاروں پر خزاں کے سائے چھا جائیں گے، نوجوانان قوم کے لیڈر کو لگتا ہے ہنوز بزرگان ملت پر ہی گرفت مل سکی ہے، اگر اس ملک کا شباب اُن کے ہمراہ ہوتا تو اب تک وہ سیاست کی جی ٹی روڈ بنا چکے ہوتے، بہر صورت فکر کی بات نہیں کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے، اور ”نرگس“ کا بھی یہی حال ہے، کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تحریک انصاف، ”صاف“ ہے اس سے تعاون کار ثواب ہے، ابھی تو خان صاحب اپنے ’گرائیں‘ کے اس گیت پر ہی گزارہ کریں۔
بالو بتیاں وے مارو سنگلاں نال
پتل بنایا ای سونا بنساں عملاں نال

حامد کرزئی کہتے ہیں پاکستان میں دہشتگردی افغانستان کے مستقبل کے لئے خطرہ ہے۔ ”جامد قرضئی“ بھی کمال کے آدمی ہیں، ان کا ہرا کوٹ قراقلی ٹوپی اور مستقبل خطرے میں دیکھتے ہوئے ہم انہیں ایک نسخہ ء کیمیا بتاتے ہیں نوٹ کر لیں
ہر گنا ہے کہ کنی در شب آدینہ بکن
تا کہ از صدر نشینانِ جہنم باشی
(جو بھی گناہ کرنا ہو جمعہ کی رات کو کیا کرو، تاکہ جہنم کے سرداروں میں تیرا شمار ہو)
پاکستان میں دہشت گردی ، غربت اور بے انصافی کے باعث ہے، کہ خالی پیٹ جوانوں کو جو چاہے ملازمت دے دے، اس کے باوجود پاکستان کا مستقبل خطرے میں نہیں، اور نہ ہم نے کبھی وہ سچا گلہ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے آ رہی ہے، اور ہماری فوج ہر روز شکایت کرتی ہے کہ پاکستان پر افغان فورس کے حملے روکے جائیں۔ اب خواہ مخواہ کرزئی صاحب قبلہ! یہ تو نہ کریں کہ جب ذرا فرصت ملی اپنا مستقبل ہم پر ڈال دیا، بلکہ مناسب ہے کہ



آڑے وقت تم دائیں بائیں نہ جھانکو
سدا اپنی گاڑی کو تم آپ ہانکو
ستارے بتاتے ہیں، یا ہمیں بناتے ہیں، کہ جلد امریکہ افغانستان سے ”ٹر“ جائے گا، پھر یہ تورا بورا کرزئی ہی کے ہاتھ آئے گا، ہمارے خطرات کو دیکھو کہ غربت، مہنگائی، ناخواندگی، بدامنی، سیاسی طوائف الملوکی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، بلوچستان کی زبوں حالی، کراچی زندگی سے خالی، مگر پھر بھی
بیٹھے ہیں تہیہ طوفاں کئے ہوئے

بیٹے کی بیوی کی طرفداری کرنے پر ماں نے خود کشی کر لی،
ناطقہ سربگربیاں ہے اسے کیا کہئے! اعتدال توازن عدل احتیاط ان چاروں کا دامن جب چھوٹ جائے تو پھر مائیں مرتی ہیں، اور جب ماں مرتی ہے، تو بہت کچھ مر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اقدار و اخلاق اور لحاظ داریاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ بیوی ماں نہیں ہو سکتی اور ماں بیوی کے برابر نہیں ہو سکتی ہمارے معاشرے میں ایسا کیوں ہے کہ گھر میں دو عورتیں ہوں تو ایک مر جاتی ہے، یا مرتی رہتی ہے، اگر بیٹا اپنی بیوی کی طرفداری کرتا بھی ہے، تو ماں کو خوش ہونا چاہئے کہ دونوں میں کتنا پیار ہے کہ بیٹا میرا پیار بھی بھول گیا، اور جو بیٹا بیوی اور ماں میں فرق کو نہ سمجھ سکا وہ اپنی اس عظیم ہستی کو کھو بیٹھا جو اس کی جنت بھی ساتھ لے گئی، ماں کا اپنا مقام ہے، بیوی کی اپنی حیثیت کسی بیٹے کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ فروٹ بھرا لفافہ لائے تو آڑھا آڑھا ہو کر گزر جائے تاکہ کہیں ماں نہ دیکھ لے، اور وہ سیدھا بیوی کے چرنوں میں لفافہ رکھ دے، ظاہر ہے کہ ماں کی تو دل کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں، وہ یہ بے اعتنائی بعض اوقات نہیں بھی برداشت کر پاتی،ماں کو کھو کر اب بیٹا کس سے کہے گا ۔
ماں اے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں ایک اور قاتل بھی چھپا بیٹھا ہے، اور وہ ہے ”عدم برداشت“ ماں نے برداشت سے کام نہ لیا، بیٹے نے بھی انتہاء پسندی اختیار کی بہو بھی دانشمند نہ نکلی کہ شوہر کو ماں کی طرف بھی توجہ دینے کے لئے کہتی اور یوں
یہ ”عمراں دا رونا“ ٹل جاتا جو اب بیٹے کو زندگی بھر بھگتنا ہو گا۔
تازہ ترین