• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیا پاکستان‘‘ اب عمران خاں کا خواب ہی نہیں یہ پاکستانی قوم کا خواب بن گیا ہے۔ یہ ظہور پذیر ملکی عوامی سیاسی حقیقت گائوں گوٹھ اور گلی محلے میں حالات حاضرہ کی گفتگو میں واضح طور پر پڑھی جا سکتی ہے۔بلاشبہ خاں اعظم کا خطاب تیزی سے قومی امنگ میں ڈھل گیا اور اب یقین عامہ کی شکل اختیار کر رہا ہے ۔ حتیٰ کہ پی پی کے کلاسیکل جیالے اور ن لیگ کے بڑے بڑے ناجائز بینی فشریز ، بدلتے عوامی رویے سے متاثر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ علمائے اسٹیٹس کو میں سے کوئی پڑھ سکے تو پڑھ لے اپنی راہ ورائے درست کرنے کے لئے اور ان محسنوں کی بھلائی کے لئے، جن کی’’ ناقابل یقین مہربانیاں‘‘ عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور کتنی ہی شکل میں استحصال مسلسل کو سمجھنے اور پڑھنے میں ان علماء کے لئے رکاوٹ بنی رہیں۔ وہ پڑھ سکیں یا نہیں، اب ان کے ساتھ کج بحثی بہت نچلی سطح پر ہی مطلوب ہے ، جس کے لئے حکمران جماعت کو بہت چھوٹاسا ابلاغی جتھہ درکار ہے ۔ یہ شپ فقط اس لئے دینا ضروری ہے کہ ضرورت سے زیادہ متحد اپوزیشن کے پاس اسٹیٹس کو کے دفاع اور عازمین نیا پاکستان پر حملہ آور ہونے کا سب سے بڑا حربہ یہ ہی ہو گا کہ قومی سوچ کا نیا بنتا عمل، پالیسی و فیصلہ سازی اور عملی اقدامات میں نہ ڈھل پائے۔ سو اسے روکا جائے جس کے لئے وہ بڑی مکاری سے ایک کے بعد دوسرا اور ایک سے بڑھ کر ایک غیر مطلوب موضوع بحث کو قومی مکالمہ کی شکل دینے اور اسے میڈیا کے ایجنڈے میں گھسانے کی کوشش کریں گے۔ یعنی آلودہ سیاسی ابلاغ سے اتنی آلودگی پیدا کی جائے کہ ملکی اور عوامی ہوتی قومی تازہ ذہنی بڑھتے بڑھتے دشمن کے مطلوب نہ آ جائے۔


سو، اسٹیٹس کو کی تازہ دم طاقت متحدہ اپوزیشن کو تحریک انصاف، جو حکمران جماعت بننا چاہتی ہے اوپر کی سطًح پر سمجھ کر پیچھے کی سطح پر بیٹھنے کا اہتمام کرے۔ اپنی بڑی توانائی عوام الناس کو ڈلیور کرنے پر خرچ کرے۔ وگرنہ متحدہ اپوزیشن کی اولین ترجیح اس کے سوا کچھ نہ ہو گی کہ قومی اور عالمی قبولیت حاصل کرنے والے انتخابی نتائج کو مشکوک و متنازعہ بنا کر اس چھتری تلے رہ کر اسٹیٹس کو کا دفاع کرے۔ اس طرح کہ ملک میں جاری و ساری عین آئینی و قانونی احتسابی عمل کے نکلتے نتائج (بلکہ عبرت اور المیوں کو پاکستانی سماجی سیاسی پسماندگی کے زور سے لیاری کے میدان میں پٹی کے باسی سیاسی سوچ کو سیاسی صدمے میں ڈھال کر عوامی بڑھتے شعور اور اس کے نتیجے ،عام شہری کے آئینی حقوق جیسے حصول تعلیم، صحت و صفائی وغیرہ کے حصول میں رکاوٹ ڈالی جائے کہ کہیں ’’نئے پاکستان‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیرہونے ان کی سیاسی دکانداری نہ ٹھپ ہو جائے ۔


یہ تو حل ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی حکومت بدترین جمہوریتوں کے حیران کن بینی فشریز سابقہ حکمرانوں اور حال ’’متحدہ اپوزیشن ‘‘ کے ابتدائی حملے جس کی تیاری اندر خانہ سرگرمی سے جاری ہے سے کیسے بچے ؟


دوسرا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی منزل کی جانب عمران خان اور ان کی کابینہ کے حلف اٹھاتے ہی ابتدائی اقدامات کیا کرنے ہیں ؟


لمبی چوڑی وضاحتوں، یقین دہانیوں اور ترغیبات کی بجائے عمران حکومت جلد سے جلد ’’ملک میں قانون کا مکمل اور قانون کا (سب شہریوںپر ) یکساں اطلاق‘‘ کو عمران حکومت نئے پاکستان کا قومی بیانیہ بنالے اور اپنے پہلے دور حکومت میں اس کی تکمیل کو یقینی بنادے۔ اس کا باقاعدہ روڈ میپ تیار کیا جائے اور مراحل کو فیصد میں اس طرح بانٹ دیا جائے کہ آئین پاکستان کی کون کون سی آرٹیکل جامد ہے ۔ حکمرانی میں اس کی خلاف ورزی کیسے ہوتی رہی۔ ٹیکس کی وصولی عوام الناس سے یقینی اور ارب پتیوں اور بھاری بھر آمدن والوں سے محال جیسی آئین کی بے رحمانہ خلاف ورزیوں کو ترجیحات دیتے ہوئے ختم کرنے کی باقاعدہ Documentedمنصوبہ بندی کی جائے اور اسے عام کرکے کارروائی کا آغاز مرحلہ بہ مرحلہ کیا جائے۔


کڑا بااعتبار اور مسلسل احتساب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا لازمہ ہے عمران حکومت اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت ہے کہ ایسے احتساب کا عمل خود عمران کی جہاد جیسی کاوشوں کے نتیجے میں اسٹیٹس کو کے انتہا پر پہنچ جانے پر پہلے ہی شروع ہو چکا ہے ۔ آنے والی حکومت نے اسے اپنی تین متذکرہ صلاحیتوں (کڑے، بااعتبار اور مسلسل ) کے ساتھ فریکوئینسی اور کوالٹی کو بتدریج بڑھانا ہے۔ یہ جتنا غیر جانبدار اور کڑا ہوا ، عمران حکومت کی زیربحث امکانی طاقتور متحدہ اپوزیشن کو کمزور اور خود پی ٹی آئی میں حساس انتخابی عمل کے دوران پیدا ہونے والی آلودگی کو ختم کر دے گا ۔اس طرح کہ جو پارٹی میں قابل احتساب ہیں، وہ بذریعہ قانون انصاف پائیں گے اور جو قابل اصلاح ہیں ان کی اصلاح ہوجائے گی۔ یوں پارٹی شفاف ہو کر مستحکم ہوتی جائے گی۔ عمران خان نے بطور حکمران نئے پاکستان کے خواب کو یقینی بنانے کیلئے پارلیمان، نیب(جو کہ آئینی ادارہ ہے) اور بالائی سطح کے دوسرے تحقیقاتی اداروں کے استحکام اور ڈلیوری پر بےحد چوکس رہنا ہے اور ان کے جلد جلد پرفارمنس آڈٹ کا عملاً اور قابل پیمائش اہتمام اپنی گورننس کے خصوصی فیچر کے طور پر کرنا ہے۔پاکستان بھر کے عام لوگوں، خصوصاً غرباء کی بستیوں، دور دراز کے دیہات اور انتہائی مفلوک الحال طبقے کی سماجی ترقی کے آغاز کو اولین ترجیح دیتے ہوئے پہلے ایک سے دو ماہ میں، صوبا ئی حکومتوں کے اشتراک و اعتماد سے ’’نئے پاکستان‘‘ کے سفر کے پہلے قدم کے طور پرNational Social Development (نیس ڈیپ) کا اعلان، مکمل روڈ میپ کے ساتھ کردیا جائے ۔ اس پروگرام میں سکول ایج کے بےسکول بچوں کی رجسٹریشن اور انکے والدین سے پروگرام کے رابطے کا میکنزم، ان کی سکولنگ اور دوسری لرننگ کے قومی ادارے کے قیام کی ڈاکومینٹیشن کا کام مکمل کیا جائے۔پینے کے صاف پانی کی غرباء میں مفت اور فی الحال متوسط طبقے میں سستی ترین تقسیم کا ملک گیر منصوبہ تمام عملیات کے ساتھ تیار کر لیا جائے اور اسے یقینی بنانے کے لئے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کو اس منصوبے پر عملدرآمد کی پیمائش سے سرکاری طور پر جوڑدیا جائے تاکہ تمام صوبائی حکومتوں پر یہ عوامی دبائو آئندہ انتخابات تک برقرار رہے۔ ملک بھر میں امن عامہ کو مطلوب درجے پر لانے کے لئے پولیس اصلاحات کا اعلان پہلے تین ماہ میں ہوجانا چاہئے۔ پولیس اور عوام کو قریب لانے اور عوام میں اس کے روایتی زاویہ نگاہ کو بدلنے کے لئے انقلابی نوعیت کے اقدامات کرنے پڑیں گے جس میں سے ایک یہ ہو کہ ذمہ دار سول سوسائٹی کی طرف سے پولیس کے فرائض کی ادائیگی کی ’’مانیٹرنگ اینڈ رپورٹ بیک‘‘ کا کوئی میکنزم بنایا جائے۔


انرجی بحران کو کم کرتے کرتے ختم کرنے کے لئے پاکستان اور بیرونی ملک پاکستان ماہرین کی دو، تین روزہ کانفرنس کا فوری اہتمام ہو جس میں ماہرین شرکاء اپنی تجاویز لے کر آئیں اور باہم مشاورت سے انہیں زیر بحث لاتے ہوئے کانفرنس کی سفارشات تیار کریں جس کی روشنی میں نیشنل انرجی پالیسی تیار کی جائے۔ انشاء اللہ، نئے پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ’’آئین نو‘‘دامے درمے سخنے ذمہ داران اور قارئین کے لئے وقف رہے گا۔

تازہ ترین