• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقیناً آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ صرف میں جانتا ہوں۔ یا پھر میرے جیسے بائولے جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جانب سے سال میں ایک مرتبہ پگلوں، بائولوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پگلے، بائولے اور کھسکے ہوئے لوگوں میں عورتیں اور مرد شامل ہوتے ہیں۔ بائولا بن جانے کیلئے جنس، عمر، رنگ، نسل کی شرط نہیں ہے۔ مرد ہو یا عورت، بچّہ ہو یا بوڑھا، گورا ہو یا کالا کوئی بھی بائولا بن سکتا ہے۔ بس بائولا بنانے والے حالات میسّر ہوں تو پھر کوئی بھی شخص بائولا بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے سال بھر طرح طرح کے دن منائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر بندہ اقوام متحدہ کی جانب سے مختص کئے ہوئے مخصوص دن مناتا ہے۔ یہ میری تحقیق نہیں ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی اپنی تحقیق ہے۔ نامزد دن سال کی کسی مخصوص تاریخ پر منائے جاتے ہیں۔ لوگ، یعنی مرد اور خواتین پھر وہ چاہے افریقا کے ہوں یا امریکہ کے، ایشیائی ہوں یا یورپی، سب ہی ساس کا عالمی دن بڑی گرم جوشی سے مناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لوگ ویلنٹائن کادن اس قدر محو ہو کر نہیں مناتے جتنا کہ ساس کا عالمی دن مناتے ہیں۔ جو لوگ خوا ہ مخواہ رومنٹک ہوتے ہیں وہ یاد رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن کا عالمی دن چودہ فروری کو منایا جاتا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد دن منانے کیلئے سال بھر کے کیلنڈر کی مخصوص تاریخیں مقرر کی گئی ہیں۔ آپ دسمبر کی پچیس تاریخ کو ویلنٹائن ڈے نہیں منا سکتے۔ آپ فروری کی چودہ تاریخ کو کرسمس نہیں منا سکتے۔ تمام نامزد عالمی دن اپنی اپنی مخصوص تاریخ پر منائے جاتے ہیں۔ مگر بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا واحد عالمی دن ہے جس کیلئے سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے کسی ایک دن کو مختص نہیں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس فیصلے کے پیچھے ایک بہت بڑی سوچ پنہاں ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ممبر ممالک جب چاہیں تب سال کی کسی بھی تاریخ کو اپنے بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا دن مقرر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اقوام متحدہ کے ممبر ممالک دیگر عالمی دنوں کے برعکس اپنے اپنے ممالک میں الگ الگ موسموں، مہینوں اور دن اور تاریخوں پر بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا عالمی دن مناتے ہیں۔


دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں لوگ تپ دق سے نہیں مرتے۔ کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں لوگ تمباکو نوشی نہیں کرتے اور ایسے ممالک بھی اس دنیا میں موجود ہیں جہاں کے لوگ سو فی صد پڑھے لکھے ہیں اور ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کے لوگ نرے ان پڑھ ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسا کوئی ملک موجود نہیں ہے جہاں بائولے، پگلے اور کھسکے ہوئے لوگ نہ ہوں۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ، نیم ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پس ماندہ ملک میں بائولے، پگلے اور کھسکے ہوئے لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ سب ہی ممالک کسی ایک دن یا ایک تاریخ پر بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا عالمی دن نہیں مناتے۔ سب ممالک اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا عالمی دن مناتے ہیں۔ پاکستان میں روز اوّل سے مختلف اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن یعنی ہم آہنگی یا مطابقت نہیں ہوتی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کسی نے آگاہ نہیں کیا کہ پچیس جولائی کے دن بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ آپ پچیس جولائی کی بجائے کسی اور دن الیکشن منعقد کروائیں۔ ہمارے یہاں ہم آہنگی کا اس قدر فقدان ہے کہ آج تک الیکشن کمیشن آف پاکستان لاعلم ہے کہ پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کا دن بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کے عالمی دن کے طور پر پاکستان بھر میں منایا جا رہا تھا۔ اسی روز الیکشن کی گہماگہمی تھی۔ لوگ جوق در جوق جتھے بنا کر پولنگ اسٹیشن جا رہے تھے۔ بائولے، پگلے اور کھسکے ہوئے گلے میں ہار ڈالے، مٹھائی کھاتے ناچتے گاتے گھوم رہے تھے۔ گلی کوچوں سے انتخابات میں کھڑے ہوئے امیدوار بھی گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اپنے ہم نوائوں کے جھرمٹ میں اپنا ووٹ ڈالنے جا رہے تھے۔ بینڈ باجوں کا آسماں شکن شور، بے انداز ڈھولکوں کی تھاپ پر بھنگڑے، فلمی گانوں پر ناچ، لڈی اور ٹھمکے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اطراف میں سیاستدان کون تھے اور بائولے، پگلے اور کھسکے ہوئے کون تھے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ پرجوش ووٹ ڈالنے والے کو اپنا لیڈر سمجھ کر اسے اپنے کندھوں پر بٹھا کر پولنگ بوتھ تک لے گئے۔ اور ایسا بھی ہوا تھا کہ ناچ گانے میں مست بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئوں نے کسی سیاستدان کو اپنا بائولا، کھسکا ہوا ساتھی سمجھ لیا اور اس کے گرد گھیرا ڈال دیا اور اسے ناچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ افسران بے خبر تھے کہ پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کے روز پاکستان میں بائولوں، پگلوں اور کھسکے ہوئے لوگوں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی لاعلمی بلکہ بھول نہیں تھی۔ اس بھول کا خمیازہ الیکشن کمیشن کو آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ طرح طرح کے الزامات الیکشن کمیشن پر لگائے جا رہے ہیں۔ طیش میں آ کر الزام تراشی کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یہی وہ الیکشن کمیشن ہے جس نے ماضی میں لا جواب اور بے مثال انتخابات منعقد کروائے تھے، جن کے نتیجے میں لاجواب لوگوں نے ملک پر حکومت کی تھی اور دودھ اور شہد کی ندیاں بہا دی تھیں۔ ایسے اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور آ گئی تھی جو کرپشن کو قریب سے گزرنے نہیں دیتے تھے۔ دیگر ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقروض نہیں ہوتے تھے۔ اپنے انقلابی اقدامات سے انہوں نے پاکستان کی معیشت کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ لینے کے بجائے پاکستان پس ماندہ ممالک کی امداد کرتا تھا۔ ایک بھول نے الیکشن کمیشن کے شاندار ماضی پر پانی پھیر دیا ہے۔ کاش انتخابات پچیس جولائی کی بجائے چھبیس جولائی کو ہوتے تو الیکشن کمیشن کی کارکردگی پہ انگلیاں نہ اٹھتیں۔ پچیس جولائی کو پاکستان میں بائولوں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین