• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاری ہوئی پارٹیوں کے حالیہ اجلاس دیکھ کرمجھے جگتو فرنٹ یاد آرہا ہے۔ نئی نسل جگتو فرنٹ سے واقف نہیں، اس لئے تھوڑا سے آگاہ کردیتا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو حالیہ اجلاسوں کی پوری سمجھ آسکے۔ جگتو فرنٹ ایک ایسااتحاد تھا جس میں شامل لوگ ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس اتحاد کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ یہ پاکستان کے قیام کے چھ سال بعد ڈھاکہ کے بھارتی قونصلیٹ میں قائم ہوا۔ اس میں عوامی لیگ، گنگاتنتری دل، کمیونسٹ پارٹی، نظام اسلام پارٹی اور کرشک سرامک پارٹی شامل تھی۔ اس اتحاد میں شامل نظام اسلام پارٹی کی قیادت کا کہنا تھا کہ وہ جمعیت علمائے اسلام کی شاخ ہے۔ جگتو فرنٹ میں مولانا اطہر، مولانا بھاشانی، فضل حق اور سہروری جیسے لیڈر شامل تھے جن کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ یہ عجب اتفاق تھا کہ اس اتحاد میں ایک ہی وقت میں انتہائی لبرل جماعتوں کے علاوہ اسلامی نظام کی خواہش مند پارٹیاں بھی شامل تھیں اور بعض تو وطن کے خلاف باتیں کرتی تھیں۔ سو، دوستو! یہ تھا جگتو فرنٹ۔


آج جب اسپیکر کی سرکاری رہائش گاہ پر ہاری ہوئی جماعتوں کا اجلاس ہوتا ہے تو بے اختیار جگتو فرنٹ یاد آجاتا ہے کیونکہ اس اتحاد میں پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی لبرل پارٹیاں بھی موجود ہیں ۔ مسلم لیگ جیسی قومی اور درمیانی سوچ کی جماعت بھی موجود ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو مذہبی سیاست کرتے ہیں۔ رہی محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی، تو اس کے بارے میں وضاحت کی کیا ضرورت ہے، بس نام ہی کافی ہے جہاں کہیں محمود خان اچکزئی کا نام آتا ہے تمام پاکستانی سمجھ جاتے ہیں کہ نظریہ کیا ہے؟ تصویری جھلکیوں میں آفتاب شیر پائو بھی موجود ہیں، سنا ہے کہ اب یہ پارٹیاں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کریں گی، باقی پارٹیوں کی تو سمجھ آتی ہے مگر آفتاب شیر پائو اور محمود اچکزئی کی پارٹیاں اندر کیسے احتجاج کریں گی ان کی تو اندر نمائندگی ہی نہیں ہے، چلو خیر یہ باہر اودھم مچا سکتی ہیں۔ جماعت اسلامی پہلے ایم ایم اے میں مولانا فضل الرحمٰن سے تنگ تھی، رہی سہی کسر اس اتحاد نے پوری کردی ہے جو مولانا پہلے حلف نہ اٹھانے کی باتیں کررہے تھے اب انہوں نے اپنے صاحبزادے اسد محمود کو ڈپٹی اسپیکر کے لئے نامزد کردیا ہے۔ سنا ہے جماعت اسلامی کو اس پر اعتراض ہے بلکہ اب تو جماعت کے کئی لوگوں کو مبینہ طور پراپنے امیر پر اعتراض ہے، پتہ نہیں اس اتحاد میں شامل جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما، اے این پی کے اسفند یار ولی کو دینی قاعدہ پڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر اسفند یار ولی سرخ سویرا اتارنے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم لیگ ن پتہ نہیں اگست کے اس مہینے میں محمود اچکزئی کے ساتھ مل کر کونسے ملی نغمے گاتی ہے یا اچکزئی اپنا نظریہ جگاتا ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ آصف علی زرداری کو لاہور، لاڑکانہ اورپشاور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا ارادہ رکھنے والے شہباز شریف کس طرح خورشید شاہ کو ووٹ دیں گے؟ واقفان حال کہتے ہیں کہ خورشید شاہ کو ووٹ دینا آسان ہے کیونکہ ن لیگ کے نزدیک شاہ صاحب اپنے بندے ہیں۔ اصل امتحان تو آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا ہے۔ آصف علی زرداری ووٹ دیتے وقت یہ ضرور سوچیں گے کہ میں ایک ایسے شخص کو ووٹ دینے لگا ہوں جو مجھے گھسیٹنے کا خواہش مند تھا، جو میرا پیٹ پھاڑنا چاہتا تھا اور میں نے بھی ان لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ہر ایک سے صلح ہو سکتی ہے مگر شریفوں سے نہیں ہوسکتی۔ دوسرا اہم مسئلہ بلاول بھٹو زرداری کا ہے جسے بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔


بلاول بھٹو زرداری کے سامنے پہلا سوال یہ ہوگا کہ یہ شخص میرے باپ کے بارے میں کیا کچھ کہتا رہا، کیا مجھے ایسے شخص کو ووٹ دینا چاہئے؟ پھر یہ لوگ میری والدہ سے متعلق کیا کچھ کہتے رہے، میری والدہ اور میری نانی کی تصاویر کی بے حرمتی کرتے رہے، کیا مجھے ایسے لوگوں کو ووٹ دینا چاہئے؟ پھر ان میں سے بہت سے لوگوں نے میرے نانا کی پھانسی پر مٹھائی بانٹی تھی، کیا ایسے لوگوں کو ووٹ دینا مناسب ہے؟ اسی طرح شہباز شریف کے سامنےبھی ایک سوال کھڑا ہوگا کہ میرا بھائی اور بھتیجی کہتے تھے کہ ’’آصف زرداری اور عمران خان دونوں ایک ہی ہیں، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں‘‘ کیا ان کے ساتھ چلوں؟


اس تمام صورتحال پر صوبیدار خلیل کا پوتا خوش ہے کہ چلو یہ سب اکٹھے تو ہوئے، ان کے نظریات مختلف سہی مگر چلو عمران خان کے خلاف تو ایک ہوئے ہیں۔ اس صورتحال پر پاکستانی عوام کی بھی ایک سوچ ہے، وہ سوچتے ہیں کہ


کاش یہ تمام رہنما ایک ہوتے، صرف پاکستان کے لئے۔


کاش! یہ اکٹھے ہوتے، اس مقصد کیلئے کہ جو بھی ہم نے لوٹ مار کی ہے وہ پیسہ پاکستان لے آتے ہیں۔


کاش! یہ اکٹھے ہوتے اس بات کے لئے کہ چلو اکٹھے ہو کر اپنے ملک کے لئے ڈیم بناتے ہیں۔


کاش! یہ ایک ہوتے اس بات پر کہ آئو ملک کو جہالت کے اندھیروں سے نکالتے ہیں، علم کی روشنی کے لئے کام کرتے ہیں، اپنے ملک کے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔


کاش! یہ ایک ہوتے کہ ملک سے غربت، افلاس اور بھوک کا خاتمہ کرتے ہیں۔


کاش! یہ اکٹھے ہوتے اس مقصد کیلئے کہ آئو ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کرتے ہیں، آئو ڈالر کو سستا کرنے کیلئے روپے کو مضبوط کرتے ہیں۔


کاش! یہ انصاف اور مساوات کیلئے ایک ہوتے۔


کاش! مگر کاش! ایسا نہیں ہے، یہ محض اپنے اقتدار کیلئے ایک ہوئے ہیں، انہیں ہار ہضم نہیںہورہی، یہ نیا جگتو فرنٹ اپنے لئے ایک ہوا ہے، پاکستان کیلئے نہیں۔ بقول نوشی گیلانی؎


کچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے


برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین