• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انصاف اور تعلیم پر حملہ

گلگت، بلتستان:سیشن جج کی گاڑی پر فائرنگ، اسکول جلانے میں ملوث 2دہشت گرد ہلاک ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دہشت گرد مذہبی انتہاء پسند ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں جو دہشت گردی ہو رہی ہے یہ ہمارے وجود کو مٹانے کی مکروہ عالمگیر سازش ہے جس میں ہم کسی مخصوص قوت کا نام نہیں لینا چاہتے، اور نہ ہی ایسی قوتیں کبھی سامنے آتی ہیں، یہ اپنی دولت اور ہتھیاروں کے بل بوتے پر ہمارے ہی بعض افراد کو استعمال کرتی ہیں، باطل نے ہمیشہ حق کو حق کے نام نہاد نام لیوائوں کے ذریعے ہی نقصان پہنچایا، بالخصوص آج کے دور میں جنگیں نہیں ہوتیں، بھائی سے بھائی کو مروا کر ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے، اور صد افسوس کہ معلوم ہونے کے باوجود مسلم امہ اس طرف توجہ نہیں دے رہی، گلگت بلتستان میں اسکول جلانا اور ایک سیشن جج پر حملہ شروعات ہے، اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ تعلیم اور انصاف دو ایسے شعبے ہیں کہ جن کو تباہ کر کے ہی ہمیں تباہ کیا جا سکتا ہے، اگر کوئی جانتے ہوئے حقیقت سے انجان بنے تو وہ مرتد حق ہوتا ہے شاید ہم اسی جانب من حیث الامت اور من حیث القوم بڑھ رہے ہیں، پاکستان میں حکومت سازی کے دن ہیں، اس حساس موقع پر یہ کارروائی ایک ریڈ الرٹ ہے جس سے خبردار و ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کوجو حکومت سنبھالنے والے ہیں، ان کو جو اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور پاکستانی قوم کو جس کی بربادی کا سامان ہو رہا ہے۔ تعلیمی ادارے اور عدالتیں دو ایسے شعبے ہیں، کہ درست رہیں، چلتے رہیں، محفوظ رہیں تو باقی تمام شعبے صحیح کام کرتے ہیں، ہم کیوں یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم پر حملے مذہبی دیوانے انتہاء پسند نادان نہیں کر رہے کیونکہ ہمارے جن شعبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ایک دانشورانہ سازش ہے، جسے ماہرین نے تیار کیا، مذہبی انتہاء پسندوں کو تو صرف ٹول کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے، کیا ہم لارنس آف عریبیہ کو بھول گئے کہ وہ مائنڈ سیٹ کو کیسے تبدیل کرتا تھا، اس موضوع کی تفصیلات بہت ہیں مگر اشارہ ہی کافی ہے۔


٭٭٭٭


’’گناہ گارو! گناہ کرو‘‘


مختلف چینلز پر ایک مشروبات کمپنی کے تحت منعقد ہونے والے بینڈ مقابلوں میں ایک شریک فنکارہ نے جب یہ گیت چھیڑا ’’گناہ کرو گناہ گارو‘‘ تو اتوار کی شام گناہ سے رنگین ہو گئی اس ’’بینڈ بیٹل‘‘ میں گیت کے اختتام پر کسی جج نے اس لائن کی داد نہ دی تو بڑا افسوس ہوا کہ گناہ گاروں کو گناہ کا اذنِ عام مل گیا اور انہوں نے شاباش تک نہ دی، چلو تنقید ہی کر دیتے کہ یہ کیا گا رہی ہو، اس گیت کو بار بار کئی چینلز نے دہرایا مگر کہیں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے آوازئہ حق بلند نہ ہوا سوشل میڈیا پر بھی کسی نے کہا کہ گناہ کی یہ دعوت عام کیوں؟ آخر ہم کونسا میوزک اور کونسا کلچر یہاں متعارف کرا رہے ہیں۔ ایسا گیت تو ہمارے ہمسایہ ملک سے کبھی سنائی نہیں دیا، پھر مملکت خداداد میں یوں سرعام کہ ’’گناہ گارو! گناہ کرو‘‘ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہم جیسے گناہ گاروں کی مراد بر آئی، درست ہے کہ یہ ایک گیت تھا اور ایک نو آموز فنکارہ نے اسے مقابلے میں گایا مگر قومی چینلز کا یوں اسے بار بار نشر کرنا کیا نقش چھوڑے گا کیا اس کا ذرہ بھر بھی احساس نہ کیا گیا، اشتہارات ہوں یا اس طرح کے کلچرل پروگرام باقاعدہ ایڈٹ ہوتے ہیں پھر یہ دانستہ بھول کیسی؟ شاید ہم ہی کسی بھول میں تھے، اشیاء فروخت کرنے والے اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کے لئے اور جدید میوزک بینڈز کی حوصلہ افزائی کے لئے ضرور ایسے مقابلے کرائیں مگر ہر گیت کو دیکھ تو لیا کریں کہ اس کا کنٹینٹ کیا ہے کہیں وہ ہماری قدروں سے متصادم تو نہیں، گناہ گار تو ہم ہیں کہ انسان گناہ کا پتلا ہے مگر یوں گناہ کا لائسنس جاری کرنا آخر چہ معنیٰ دارد؟ موسیقی کسے اچھی نہیں لگتی مگر یہ آبگینوں کو ٹھیس پہنچائے تو اسے موسیقی کون مانے گا، اور وہ بھی اتنی بھاری قیمت چکا کر کوئی ایسا گیت بھی تو گائو ’’آئو گناہ مٹائیں‘‘ کیا ایسا بالکل ممکن نہیں رہا؟ ایسا ہے تو اپنے اساسی نعرے نہ دہرائے جائیں تاکہ گناہ کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے۔


٭٭٭٭


امید اور حوصلہ افزائی


امید اور حوصلہ افزائی اپاہج کو اٹھا کر چلنے کی طاقت عطا کرتی ہے، اور اگر ہم کسی کے گرنے کا انتظار کریں، اس کا سامان کریں تو کوہ گراں بھی ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے، جن قوموں میں قنوطیت (ناامیدی) پیدا ہوئی وہ مٹ گئیں، ایک چیونٹی اپنے وجود سے بڑے رزق کے ٹکڑے کو اپنی بل میں لے جاتی ہے، یہی نشانیاں ہی نشان منزل ہوتی ہیں، اگر سوچ یہ فتویٰ دے کہ کوئی ایک بڑا درست کارنامہ سرانجام دینا چاہتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہ کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، اور فرد اگر امید کا دامن چھوڑ دے تو زرد پڑ کر شاخ سے گر جاتا ہے ، آج ہمیں سب کچھ بھلا کر امید اور صاحب امید کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، ایک مضبوط صالح نظام کے بغیر کچھ بھی معاشرے میں کرنا ممکن نہیں رہتا، جن دماغوں میں منفی سوچ پہلے پیدا ہو ان میں مثبت سوچ کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں، نفی کرنا اچھی بات مگر منفی ذہنیت دشمن ذات و ماحول ہے، قرآن حکیم نے فرمایا:’’لا تقنطوا‘‘ (نا امید مت ہو) کیا اس کتاب میں کوئی شک ہے؟ اور امید اگر اچھی ہو تو ویسا ہی ہو جاتا ہے، امید بری ہو تو وہ سرے سے امید ہی نہیں۔ امید وہ ساقی ہے جو گرتوں کو تھام لیتا ہے، حوصلہ شکنی، نشہ ہے گرا دیتا ہے، پُر امید کو تھوڑا سا حوصلہ مل جائے تو وہ شعور، حرکت اور عمل میں ڈھل جاتا ہے چاہئے کہ امید دلائی جائے چھینی نہ جائے، امید وہ چھینتے ہیں جو خود غرض اور بندئہ ہوس ہوتے ہیں، چلتے کو چھانٹا نہ ماریں امید دلائیں، حوصلہ دیں، دست و بازو بنیں پھر دیکھیں خدا کیا کرتا ہے۔ معجزے اسی طرح رونما ہوتے ہیں، اگر کوئی صحیح راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اسے چلنے دیں ہمارے پاس تو قرآنی فکر موجود ہے کہ ’’اچھائی میں تعاون کرو برائی میں تعاون مت کرو‘‘ یہ ہے سچی کھری سیاست جو کتاب حکمت سکھاتی ہے، امید اور حوصلہ ہی قوت ہے، اسے کام میں نہ لانا یا کام میں نہ لانے دینا وہ گناہ ہے جس کی تلافی ہے نہ معافی۔


٭٭٭٭


بُرا مان گئے؟


....Oسیمینار:پی ٹی آئی کو عوام کی توقعات پوری کرنے کے لئے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔


عوام، توقعات نہ رکھیں تو کیا رکھیں؟ چیلنجز تو زندگی کا جزو لاینفک ہیں۔ بقول ابن انشاء


کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں ؟ کہا تم اونٹ پر بیٹھو


کہا کوہان کا ڈر ہے کہا کوہان تو ہو گا


....Oتجزیہ:پنجاب میں ن لیگ پر ضرب لگانے کے لئے پرویز الٰہی پر بھاری ذمہ داری عائد۔


اگر ضرب لگانا ہی مقصود ہے تو انہیں یہ ذمہ داری نہ دیں۔


....O چوہدری شجاعت حسین:ملکی مفاد میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔


سارا رولا ہی ملکی مفادات کا ہے، اسی لئے ملک میں بجلی ہے نہ پانی کچرا ہی کچرا ہے۔


....Oعمران خان کا پہلا امتحان، مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت،


درست جملہ یوں ہے عمران کا پہلا فریضہ یرغمال معیشت کو چھڑانا۔


....Oروس کی پاکستان کو ایس یو 35لڑاکا طیاروں کی پیشکش۔


قبول ہے مگر پہلے ایجاب و قبول ہو جائے۔


....O ملیحہ لودھی سے ملاقات میں عمران خان نے کہا:مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے قابل قدر کوششیں نہیں کی گئیں۔


مسئلہ کشمیر کے حل ہو جانے سے دونوں ملکوں کی سیاست میں مندی کا اندیشہ ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین