• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ انتخابات تک دس بار عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا لیکن ہارنے والوں نے کبھی شکست تسلیم نہ کی جس کا نتیجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورت میں جاری و ساری رہا۔ 25جولائی اور1977کے عام انتخابات میں مماثلت یہ ہے کہ تب ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے منعقد کرائے جانے والے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی کے الزامات عائد کر کے حزب اختلاف کی نو جماعتوں نے پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) تشکیل دیکر انتخابی نتائج کے خلاف تحریک شروع کر دی تھی جبکہ حالیہ انتخابات میں بھی حزب مخالف کی نو جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے ’’پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشنز‘‘ قائم کیا ہے۔ تب نو رکنی اتحاد نے اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرکے صرف سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اپنایا تھا جس سے ملک میں ایسی خونریزی شروع ہوئی کہ بھٹو کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے لیکن جس دن حکومت اور حزب اختلاف میں دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے معاہدے پر دستخط ہونا تھے اسی دن ضیاء الحق نے مارشل لانافذ کر کے سیاست دانوں کیساتھ جمہوریت کا بوریا بستر بھی گول کر دیا۔ موجودہ حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر بھی احتجاج کی حکمت عملی طے کی ہے تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ انہوں نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے احتجاج کو جمہوری دائرہ کار کے اندر رکھنے اورمتوازی طورپر پارلیمان کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمہوری عمل پریقین کی پختگی کا یہ بھی ثبوت ہے کہ عام انتخابات میں شکست سے دو چار ہونیوالی سیاسی جماعتوں نے مبینہ دھاندلی، بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی شکایات کیلئے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے جبکہ ان جماعتوں کے متعلقہ امیدواروں نے انصاف کے حصول کیلئے ریٹرننگ افسران کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دینے اور شنوائی نہ ہونے پر ہائی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق10 ہزار یا پانچ فیصد سے کم ووٹوں سے شکست کی صورت میں متعلقہ امیدوار دوبارہ گنتی کیلئے ریٹرننگ افسران کو درخواست دے سکتے ہیں اور حالیہ الیکشن میں248حلقے ایسے ہیں جہاں جیت کا مارجن پانچ فیصد سے کم ہے، ان میں قومی اسمبلی کے79اور صوبائی اسمبلیوں کے169حلقے شامل ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے تحت کئی امیدواروں نے دوبارہ گنتی کی درخواستیں دیں جن میں سے صرف چند کی شنوائی ہوئی جبکہ اکثریت کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔ اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ نے بعض متاثرہ امیدواروں کی دوبارہ گنتی کی درخواتیں مسترد کرنے کے ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کو انصاف کے تقاضوں کے منافی بھی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے نوٹی فکیشن جاری کرنے کیلئے سات اگست کی تاریخ مقرر کی ہے جس کے بعد شکایت کنندہ کو دادرسی کیلئے یقیناً الیکشن ٹریبیونلز سے رجوع کرنا پڑے گا۔ انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن (فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک) نے انتخابی نتائج کے تجزیے کے بعد انتہائی اہم رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق حالیہ انتخابات میں 16 لاکھ 78 ہزار چھ ووٹ مسترد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ پنجاب میں 9لاکھ6ہزار952ووٹ مسترد ہوئے۔ سندھ میں4 لاکھ8 ہزار 613، خیبر پختونخوا میں2 لاکھ48 ہزار941، بلوچستان میں1لاکھ8 ہزار558 اور اسلام آباد میں4ہزار942 ووٹ مسترد ہونے پر گنتی میں شمار نہیں ہوئے۔ ماضی کے الیکشن کاجائزہ لیا جائے تو اتنے ووٹوں کا مسترد ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ2013کے گزشتہ انتخابات میں بھی15لاکھ 2 ہزار 717ووٹ مسترد ہوئے تھے۔ اس بار تو رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں بھی تقریبا دو کروڑ کا اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 23فیصد زیادہ ہے۔ حالیہ الیکشن میں مسترد ووٹوں کا یہ معاملہ انتہائی سنگین صورتحال اس وجہ سے اختیار کرتا نظر آتا ہے کیونکہ فافن نے اسی رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا کہ قومی اسمبلی کے49اور صوبائی اسمبلیوں کے120 حلقے ایسے ہیں جہاں مسترد ووٹوں کی تعداد جیت کے مارجن پہ مبنی ووٹوں سے زیادہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے عبوری نتائج کی بنیاد پر مرتب کردہ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے ان 49حلقوں میں سے 21پر تحریک انصاف،11پر مسلم لیگ ن۔ 6پر پیپلز پارٹی اور6 پر بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے120 ایسے حلقوں میں سے41پر تحریک انصاف،29 پر مسلم لیگ ن،13 پر پیپلز پارٹی،11 پر متحدہ مجلس عمل،6 پر جی ڈی اے،6 پر بلوچستان عوامی پارٹی،2 پرایم کیو ایم جبکہ9 پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ انتخابی نتائج کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے ان49حلقوں میں 14اور 120 صوبائی حلقوں میں49 ایسے ہیں جہاں جیت کا مارجن ایک ہزار ووٹوں سے بھی کم ہے جبکہ ان حلقوں میں مسترد ووٹ ہزاروں میں ہیں۔ چند مثالیں دیں تو این اے131لاہور میں عمران خان ،خواجہ سعد رفیق سے صرف680ووٹوں سے جیتے جبکہ مسترد ووٹ2835 ہیں، این اے21 مردان سے امیر حیدر تحریک انصاف کے محمد عاطف کے مقابلے میں صرف33ووٹوں سے فتحیاب ٹھہرے جبکہ مسترد ووٹ5790 ہیں، این اے 89 سے ن لیگ کے محسن شاہنواز823ووٹوں سے تحریک انصاف کے امیدوارسے شکست سے دوچار ہوئے لیکن حلقے میں مسترد ووٹ6869نکلے، این اے140قصور سے ن لیگ کے رانا حیات تحریک انصاف کے سردار طالب نکئی سے صرف236ووٹوں سے ہارے لیکن مسترد ووٹ7453پائے گئے، این اے91 سرگودھا سے ن لیگی امیدوار ذوالفقار بھٹی تحریک انصاف کے عامرسلطان چیمہ سے محض279 ووٹوں سے کامیاب قرار پائے جبکہ حلقے کے مسترد ووٹ6733ہیں۔ این اے 114جھنگ سے تحریک انصاف کے صاحبزادہ محبوب سلطان پیپلز پارٹی کے فیصل صالح حیات صرف 589ووٹوں سے جیتے لیکن حلقے میں مسترد ووٹ 12970 ہیں۔ این اے 230 بدین سے فہمیدہ مرزا جی ڈی اے کے امیدوار حاجی رسول بخش سے صرف 860 ووٹوں سے جیتیں جبکہ وہاں مسترد ووٹ10263ہیں۔ این اے249 کراچی سے شہباز شریف صرف 718 ووٹوں کے فرق سے فیصل واوڈا سے ہارے لیکن مسترد ووٹ2684ہیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں میں پی کے4سوات سے تحریک انصاف کے عزیز اللہ خان ن لیگ کے امیرمقام سے محض182ووٹوں سے جیتے جبکہ مسترد ووٹ3236ہیں۔ پی کے70پشاور سے تحریک انصاف کے شاہ فرمان اے این پی کے خوشدل خان سے محض47ووٹوں سے جیتے لیکن حلقے میں مسترد ووٹ 2095 ہیں۔ پی کے ایم ایم کے اکرم درانی تحریک انصاف کے ملک عدنان سے صرف173 ووٹوں سے جیت پائے جبکہ حلقے میں مسترد ووٹ 1470ہیں۔ پی پی 2 راولپنڈی سے آزاد امیدوار راجہ صغیر ن لیگ کے راجہ محمد علی سے محض127ووٹوں سے جیتے لیکن مسترد ووٹ 5735قرار پائے،پی پی91بھکر سے آزاد امیدوار سعید اکبر تحریک انصاف کے غضنفر عباس سے صرف2ووٹوں سے جیتے لیکن مسترد ووٹ 3237ہیں۔ پی ایس کراچی سے ایم کیو ایم کے باسط صدیقی تحریک انصاف کے جان گبول سے صرف 467ووٹوں سے ہارے جبکہ مسترد ووٹ1288 پائے گئے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ الیکشن کمیشن کے ووٹرز ایجوکیشن پروگراموں اور میڈیا پر آگاہی مہم کے باوجود ہر الیکشن میں مسترد ووٹ ماضی کے مقابلے میں بڑھتے جا رہے ہیں اس بار بھی مسترد ووٹوں میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 169قومی و صوبائی اسمبلیوں کے مسترد ووٹ حیت کے مارجن سے بہت زیادہ نکلے ہوں، انتہائی سنگین معاملہ ہے جس کی آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے ورنہ خدا نہ کرے کہ کسی انفرادی شخص یا ادارے کی کوتاہی کا خمیازہ پورے جمہوری نظام کو بھگتنا پڑے۔

تازہ ترین