• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018کےانتخابات میں بڑے بڑے سیاسی ستون زمین بوس ہو گئے۔خلقِ خدا کہتی ہے یہ بوسیدہ تھے،شکست خوردہ سیا ستدان کہتے ہیں وجوہات دیگر تھیں ۔ واقعہ جو بھی ہو لیکن ہر سوٹوٹے، بکھر ے پڑے سیاسی لاشوں کی شاعر نے کیا فقیدالمثال ترجمانی کی ہے۔

ہم جہاں ڈوبے کوئی پتھر نہ کوئی نقش ہے

موج تھی گھل مل گئی پانی برابرہوگیا

راقم ايک معمولی سا قلم کار ہے، نہ کوئی معلومات رکھتا ہے، اور نہ ہی معلومات تک رسائی کے ذرائع ،لیکن قبل از انتخابات کےواقعات ایسے واضح تھے،پھر نہ جانے ’’کیوں‘‘ ایسے ماہر سیاستدان جنہیں بزعمِ خود یہ دعویٰ ہے کہ اُن کے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا ، وہ نقشہ مشہود دیکھ نہ پائے۔ جب ہمارے ذرائع نہیں تھے، تو پھر کیا ہمیں الہام ہوگیا تھا، نہیں جناب!! گلی ، محلوں ، کھیت ، کھلیانوں میں یہ بات عام ہوچلی تھی،کہ عمران خان کی انگڑائی پذیر تقدیر سے سب ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں ۔


ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آگئی


یہ تماشا میں نے دیکھابام پر ہوتا ہوا


جب عمران خان کے اصل حریف میاں نوازشریف بے دست و پا ہوگئے، جب اُن کی شیر دل صاحبزادی پابند سلاسل ہوئی، جب ایم کیو ایم کے ’ نخرے‘ بخرے ہوگئے،۔ جب ساری جماعتیں موثر انتخابی مہم سے قاصر تھیں اور صرف اور صرف عمران خان میدانوں سے ریگستانوں اور سوشل میڈیا سے ٹی وی اسکرینوں پر لوگوں کو اپنابنارہے تھے ،موسمی پرندے الیکٹ ایبلز کا تازہ جامہ پہن کر اُڑ اُڑکر کپتان سے ہم آغوش ہو رہے تھے۔جی ہاں !اور قبل ازیںسینٹ میں جب آنکھوں کو خیرہ کرنے والا ٹریلر چلا،تو کیا سب کچھ واضح نہیں تھا کہ آنے والی فلم ان نام نہاد ستونوں سمیت تمام جماعتوں کیلئے کس قدر خوفناک مناظر لئے ہوئے ہوگی؟ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ، آج کی شکست خوردہ جماعتوں نے اِس طرح کا اتحاد کیوں نہیں بنایا، جس طرح آج وہ باہم بغلگیر ہیں!یہ سیاستدان تو جہاندیدہ ہیں، پھر کیا بروقت ادراک نہ کرسکے یا کوئی اور بات تھی!


کہنا یہ مقصود ہے کہ ہر طرف سے، آنے والے حالات کی رونمائی ہورہی تھی ، آسمانِ سیاست پر مطلع آبرآلود تھاہی نہیں۔پھر وہ ’چاند ‘جو بہت نمایاں تھایہ حضراتِ باکمال کیوں دیکھ نہ سکے!یا پھر ہر کوئی اسے ’اپنا‘چاند جان کر خاموش تھا؟سیاست او ر انسانی بینائی کا اساسی فرق یہ ہے کہ انسانی بینائی عمر ڈھلنے پر کمزورہوتی چلی جاتی ہے اور سیاسی بینائی تجربے کے ساتھ نکھرتی ہے۔یوں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ و ہ سیاسی چاند کو دیکھ نہ سکے بلکہ ماجرہ یہ تھا کہ ہر ایک کو یہ یقین تھا کہ اس چاند کی روشنی سب سے زیادہ اُنہیں منور کرنے والی ہے۔عوامی زبان میں ہر ایک’ آسرے‘ پر تھا۔یوںاس موقع پرست سیاست کا نقصان یہ ہو ا کہ موقع پرایسا اتحا د معرض وجود میں نہ آسکا جیسا کہ اب ہے۔ گویا یہ ’ ماہر ‘ سیاستدان اس توقع پر تھے کہ انتخابی نتائج کا پری وش بس انہی سے لبِ بام ہونےوالا ہےلیکن وائے افسوس جب نتائج آئے توانہیںیقین ہوگیا۔


بوسہ تو اس لبِ شیریں سے کہاں ملتا ہے


گالیاں بھی ملیںہم کو تو ملیںتھوڑی سی


ہاں پیپلز پارٹی نے اپنی قیمت پالی ہے۔اس کے باوجود اُس کا شور و غوغا کسی خوف کا اظہار لگتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، یہ کل ہی کی بات ہےکہ پیپلز پارٹی نے میاں نواز شریف کا ساتھ نہیں دیا۔اب جو پیپلز پارٹی شور مچا رہی ہےاورکالے کوٹ سمیت سب کچھ بھول کر اتحاد اتحاد کھیل رہی ہے ، تو اس کی وجہ بھی اس جماعت کا کوئی خوف ہی لگتا ہے ۔ایم کیو ایم بھی اگر شش و پنج میں مبتلا ہے، تو اس کی وجہ بھی کوئی خوف ہی ہوگا ۔ایم کیو ایم سے اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر بہر صورت اس جماعت کا حال قابلِ رحم ہے،کیا زمانہ تھا کہ چارسو اس جماعت کے رزم وبزم کے قصے عام تھے اوروائے گردش دوراں کہ اب۔


وہ حق پرست کیسے ہوئے مصلحت پرست


نغموں سے بے لباس ہوئے ساز کس طرح


خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں جس طرح ہر شے میں ملاوٹ کی جاتی ہے ، اسی طرح سیاست بھی ملاوٹ شدہ ہے۔اصطلاحی طور پر سیاست خدمت کا نام ہے لیکن پاکستان میں سیاست قول وفعل کے تضاد کا نام بن کر رہ گیا ہے۔بڑے ستون کہلائے جانے والے جتنے سیاستدان ہا رچکے ہیں، ہرا یک دوسرے کی ہار پر خوش ہے، لیکن اپنی شکست کا اسے غم ہےاور یہی غم اُسے کل کے غیر غماز کو بھی بوسہ دینے پر آمادہ کرچکا ہے۔ ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ آمریت سے لنگڑی لولی جمہوریت بھی بہتر ہے، انہی استاذہ کا یہ بھی کہنا کہ انتخابات ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ تطہیر کا عمل جاری رہے۔جیسا کہ 2018کےانتخابات میں بڑے بڑے سیاسی ستون زمین بوس ہو گئے۔خلقِ خدا کہتی ہے یہ بوسیدہ تھے،شکست خوردہ سیا ستدان کہتے ہیں وجوہات دیگر تھیں ۔ واقعہ جو بھی ہو لیکن ہر سوٹوٹے، بکھر ے پڑے سیاسی لاشوں کی شاعر نے کیا فقیدالمثال ترجمانی کی ہے۔


ہم جہاں ڈوبے کوئی پتھر نہ کوئی نقش ہے


موج تھی گھل مل گئی پانی برابرہوگیا

تازہ ترین