• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیمز(James) سے دوستی امریکہ میں دوران تعلیم ہوئی ،وہ پاکستان کے کئی دورے کرچکاہے۔ ہم اپنے ماحول اور معاشرے کی جن جن خامیوں پر تنقید کرتے ہیں وہ ان میں سے اکثر کو بہت انجوائے کرتا ہے۔ اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کرتا ہے لیکن راولپنڈی،اسلام آباد کے علاوہ لاہور اورکراچی بھی جا تا اور یہا ںکے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھومنا پھرنا پسند کرتا ہے۔ امریکن ہونے کے باوجود گورے کالے کی مکس نسل کی وجہ سے اس کی شخصیت مقامی سی لگتی ہے۔شلوارقمیض بھی پہننا ہے اور شلوار کے ازاربند کو ایک مشکل کام قرار دینے کے باوجود کہتا ہے شلوار قمیض دنیا کا بہترین اور آرام دہ لباس ہے ۔ایک مرتبہ اسے چکوال کا دورہ کرایا تو وہاں بیل کے ذریعے کنوئیں سے نکلتے پانی کے طریقہ کار کو بہت انجوائے کیا اب جب بھی آتا ہے تواس کنوئیں کو دیکھنے کی فرمائش کرتا ہے ۔ اورکہتا ہے اس سے زیادہ انرجی سیونگ طریقہ اور پالتو بیل کی فرما برداری کہیں دیکھنے کو نہیں مل سکتی کہ بیل بغیر مالک کے ہانکنے کے چلتا رہتا ہے ۔جب بھی راجہ بازار یا کسی اور علاقے میں جاتا ہے تو کوئی نیا فقرہ ضرور سیکھ کرآتا ہے اور پھر سارا دن اس فقرے کو دُہراتا رہتا ہے لیکن اس کے انگلش اسٹائل کی وجہ سے میں وہ فقرہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہوں لیکن جب اچانک وہ چیز سامنے آتی ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گزشتہ کئی دنوں سے کیا دُہرارہا تھا اور اس کی کئی مثالیں ہیں۔مثلا ایک روز وہ کہتا رہا کہ ’’کھنہ پل کھنہ پل‘‘ جو مجھے بعد میں سمجھ آیا کہ وہ وین کے کنڈیکٹر کی نقل اتار رہا تھا۔ لاہور کے کسی بازار سے یہ سیکھ کر بھی آگیا کہ’’ ٹھنڈا ٹھار پیو‘‘ اور مجھے سے کئی روز پوچھتا رہا کہ یہ ’’ٹھانڈا ٹھرپیو‘‘ کیا ہوتا ہے جب میں اس کی بہت ساری مثالوں کے باوجود سمجھ نہ سکا تو کہنے لگا ’’اٹس ڈرنک نیم‘‘its drinks name مجھے پھر سمجھ میں آیا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ جیمز امریکہ میں یوتھ کے حوالے سے ریسر چ کاکام کرتا ہےاور اس حو الے سے بہت ساری رپو ر ٹس مر تب کر چکا ہے۔ ہمارے الیکشن 2018کے وقت وہ اسلام آباد میں ہی تھا۔الیکشن پر ڈسکشن کے دوران ایک سوال کے جواب میں جب میں نے اسے بتایا کہ تقریباً چار کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹرز ایسے ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سے35 سال ہے تو اپنی سیٹ سے تقر یباً اچھل پڑا توکہنے لگا کہ یہ تو بہت بڑی دولت ہے ۔میںنے کہا ہاں لیکن بے روزگاری ہے۔ چاہے وہ پڑھا لکھا ہے یا کم پڑھا لکھا یا بالکل ان پڑھ اسے اپنے مستقبل کی فکر کھائے جارہی ہے ۔پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے ان میں سے اکثر کی کوشش ہے کہ انہیں کسی ترقی یافتہ ملک کا ویزہ مل جائے تو وہ وہاں جا کراپنی قسمت آزمائی کریں ۔ان کا خیال ہے کہ اپنے ملک میں ان کے لیے کچھ نہیں اور اگر کچھ ہے بھی ،تو وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ جیمز نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ تو حکومت کا کام ہے کہ وہ اتنی بڑی یوتھ کی تعداد کے لیے مواقع پیدا کرے اوراس سے حکومت اور ملک خود بھی فائدہ اٹھائے اور نوجوانوں کو روزگار بھی مل سکتا ہے ان کو کھیلوں کے مواقع دیں۔ان کیلئے کاٹیج انڈسٹری بنائیں۔انہیں آئی ٹی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے لیے تیار کریں۔ آپ لوگ پاکستان کو زرعی ملک کہتے ہیں تو انہیں زراعت کے لیے استعمال کریں تو اس بڑی دولت کیا ہوسکتی ہے کہ آپ کا نوجوان زراعت کی طرف جائے ۔میں نے کہا کہ پڑھے لکھے نوجوان زراعت کی طرف نہیں جاتے تو جیمز کہنے لگا یہ تو حکومت کا کام ہے کہ انہیں تربیت اورمراعات دے اور ہاں آپ اپنے نوجوانوں سے اپنی قوم کی تربیت کا کام بھی لے سکتے ہیں۔ گریجویٹ یا اس سے کم تعلیم مکمل ہونے میں آپ نوجوانوں کو تربیت دے کر لوگوں کو ٹریفک کی آگہی اور نظم وضبط کیلئے استعمال کریں گندگی پھیلانے والوں کے لیے آگہی کے لیے استعمال کریں اور نوجوانوں کے لیے تین ماہ کی یہ کمیونٹی سروس لازمی قرار دیں اور انہیں اس دوران حکومت وظائف بھی دے ۔آپ کو چاہیے کہ اس دولت کو ضائع مت کریں۔


twitter:@am_nawazish


SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین